وزیراعظم قبضہ مافیا کی اطلاع نہ دیں، سخت کارروائی کریں
پاکستان میں موجود مضبوط ترین مافیاؤں میں سے ایک قبضہ مافیا ہے جو نہ صرف نجی بلکہ سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ دیگر مافیاؤں کی طرح یہ مافیا بھی اس حد تک طاقتور ہے کہ حکومت اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارلیمان کے اندر اور باہر موجود کئی بااثر لوگ اس مافیا کی باقاعدہ سرپرستی کرتے ہیں اور جب بھی اس پر مشکل وقت آنے لگتا ہے تو وہی لوگ اس کے لیے ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ اندریں حالات، کسی بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس مافیا پر ہاتھ ڈال کر اس کے قبضے سے نجی اور سرکاری اراضی چھڑا سکے۔ اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے رواں برس ستمبر میں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کی ڈیجیٹل کیڈیسٹرل میپنگ یعنی کمپیوٹر کی مدد سے نقشے بنا کر زمین کی نوعیت جاننے کے سلسلہ کا آغاز کیا تھا۔ اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور کراچی کی کیڈیسٹرل میپنگ کا کام جاری ہے جس کے جلد مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اسی حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے ڈیجیٹل کیڈیسٹرل نقشہ سازی کے پہلے مرحلہ میں 5595 ارب روپے مالیت کی سرکاری اراضی پرتجاوزات کی نشان دہی ہوئی ہے۔ مصدقہ ڈیجیٹل ریکارڈ کی مدد سے اب ہم لینڈ مافیاز اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اتوارکو سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹوئٹر پروزیراعظم نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر احتجاج کی طرح جب ہم نے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈز کے لیے پاکستان کی کیڈیسٹرل میپنگ کا آغاز کیا تو ہمیں شدید مزاحمت کا سامنا ہوا۔ سرکاری اراضی کے سروے کے پہلے مرحلے کے نتائج سے اس مزاحمت کی وجوہ سامنے آگئیں کہ سیاسی اشرافیہ لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر جنگلات سمیت بڑے سرکاری رقبے پر ناجائز قابض ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ اراضی کے سروے کے پہلے مرحلے کے نتائج میں جو ہوشربا حقائق ہمارے علم میں آئے ان کے مطابق تین بڑے شہروں کی زمینوں سمیت لینڈ مافیا کے زیر قبضہ سرکاری اراضی کی مجموعی مالیت تقریباً 6 ارب روپے ہے۔ اسی طرح جنگلات کے زیر قبضہ رقبے کی قیمت تقریباً 1869 ارب روپے ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ جنگلات کی زمینوں پر لینڈ مافیا کے اس قبضے سے پاکستان کو جنگلات کے مناسب حجم کے حوالے سے درپیش موجودہ کمی میں مزید شدت پیدا ہوئی۔
قبل ازیں، ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیس ہزار مربع کلومیٹر جنگلاتی زمین کی نقشہ سازی بھی مکمل کر لی گئی ہے اور سات لاکھ ایکڑ زمین پر لینڈ مافیا کے قبضے کا پتا چلا ہے۔ راولپنڈی میں تخت پری جنگل کا کل 2210 ایکڑ رقبہ ہے جس میں سے 755 ایکڑ پر تجاوزات کی گئی ہیں۔ اسی طرح، لوہی بھیر کے جنگل میں اس کے کل رقبے کا 57 فیصد (629 ایکڑ) رقبہ لینڈ مافیا کے زیر قبضہ ہے۔ ستمبر میں اسلام آباد کی کیڈسٹرل میپنگ کے آغاز کے وقت وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ دارالحکومت میں تقریباً 400 ارب روپے کی زمین یا تو غیر قانونی طور پر قبضے میں ہے یا وہ زیر استعمال نہیں جبکہ تقریباً ایک ہزار ایکڑ جنگلاتی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تین شہروں کی کیڈسٹرل میپنگ کو رواں مہینے میں ہی ڈیجیٹلائز کر دیا جائے گا جبکہ اس کے بعد ملک کے باقی حصوں کو آئندہ چھے ماہ میں ڈیجیٹل ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ عمران خان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کے نظام میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اراضی کو ناجائز قبضہ کرنے والوں سے واپس لے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم اور ان کی کابینہ میں شامل وزیر اور مشیر اعلانات اور دعوے تو بہت سے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر حکومت کو کوئی کامیابی ملتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ عمران خان بہت سے معاملات میں ملک کو درست سمت میں لے کر چلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں چاہیے کہ قوم کو محض اطلاعات نہ دیں بلکہ مافیاؤں کے خلاف سخت کارروائی کر کے لوگوں کو یہ بتائیں کہ انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات کے دوران اور اس سے پہلے عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ انہیں عملی سانچے میں ڈھالنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔ اس وقت حکومت اور ہر طرح کا اختیار عمران خان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا انہیں چاہیے کہ مافیاؤں کو صرف بے نقاب ہی نہ کریں بلکہ ان کے خلاف ٹھوس اقدامات بھی کریں تاکہ عوام کا تحریک انصاف کی حکومت پر وہ اعتماد پھر سے بحال ہو جس کی وجہ سے لوگوں نے 2018ء میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے مینڈیٹ دیا تھا، بصورتِ دیگر حکومت کی طرف سے مافیاؤں کے بارے میں اکٹھی کی جانے والی معلومات اور ان کی بنیاد پر بنائی جانے والی رپورٹیں محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔