اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود کا اعلان کردیا

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 7 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق معیشت کی بحالی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے اور کاروباری احساسات مزید بہتر ہوئے ہیں جب کہ کورونا کی دوسری لہر پاکستان کی معاشی نمو میں کمی کے خاصے خطرات کو سامنے لارہی ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کھانے پینے کی اشیاء کی رسد کے دباؤ کا نتیجہ ہے جو عارضی ہوگا، رواں مالی سال مہنگائی 7 سے 9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے جب کہ مہنگائی اور معاشی نمو کے منظر نامے کو لاحق خطرات متوازن محسوس ہوتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق زری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی) نے اپنے پیر 23 نومبر کے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 7فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایم پی سی نے کہا کہ ستمبر 2020ء میں گذشتہ اجلاس کے بعداندرونِ ملک بحالی نے بتدریج زور پکڑا ہے ،جو مالی سال 21ء میں 2 فیصد سے تھوڑی سی زائد نمو کی توقعات کے مطابق ہے اور کاروباری احساسات مزید بہتر ہوئے ہیں تاہم اس منظرنامے کو خطرات درپیش ہیں۔ پاکستان اور بیشتر دیگر ممالک میں کووڈ19 کے کیسز میں حالیہ اضافہ نمو میں کمی کے خاصے خطرات کو سامنے لارہا ہے۔ جہاں تک اضافے کا تعلق ہے، ویکسین کی تیاری کی حالیہ خبریں حوصلہ افزا ہیں گوکہ اس پر دنیا بھر میں عملدرآمد ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے حالیہ اعدادوشمار سے اضافہ عیاں ہوتا ہے جس کا بنیادی سبب غذائی اشیا کی قیمتوں کا بڑھنا ہے۔ تاہم اس رسدی دباؤ کے عارضی ہونے کا امکان ہے اور اوسط مہنگائی کے مالی سال 21ء کے لیے سابقہ اعلان کردہ حد 7ـ9 فیصد کے اندر رہنے کی توقع ہے۔ تمام پہلوؤں کو ملا کر دیکھا جائے تو نمو اور مہنگائی دونوں کے منظر نامے کو لاحق خطرات متوازن محسوس ہوتے ہیں۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ نمو اور مہنگائی کے زیادہ تر جوں کے توں منظرنامے کے پیش نظر ایم پی سی کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ زری پالیسی کا موجودہ موقف نئی نئی بحالی کو تقویت دینے کے ساتھ مہنگائی کی توقعات کو منجمد اور مالی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب ہے۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ آئندہ سہ ماہیوں کے دوران نمو کو بڑھانے کے لیے وبا کے دوران دی گئی نمایاں مالیاتی، زری اور قرضہ جاتی تحریک جاری رہنی چاہیے۔ یہ فیصلہ کرنے میں ایم پی سی نے حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں کلیدی رجحانات اور امکانات اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے ابھرنے والے منظرنامے کو پیش نظر رکھا۔حقیقی شعبہ میں حالیہ اعدادوشمار جولائی سے دیکھی جانے والی معاشی بحالی کی مزید مضبوطی اور وسعت کو ظاہر کرتے ہیں جو تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کی بدولت ممکن ہوئی۔ مالی سال21ء کی پہلی سہ ماہی میں جلد فروخت ہونے والی صارفی اشیا کی فروخت بحال ہوئی، پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی اوسط فروخت کا حجم مالی سال20ء میں کورونا کی وبا سے پہلے کی سطح سے بڑھ چکا ہے اور سیمنٹ کی فروخت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) میں بحالی کا عمل جاری ہے اور مالی سال21ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس میں4.8فیصد سال بسال توسیع ہوئی جبکہ گذشتہ برس کی اسی سہ ماہی میں5.5فیصد سکڑائو دیکھا گیا تھا۔ مینوفیکچرنگ کے15میں سے9شعبے پیداوار میں اضافے کے عکاس ہیں جن میں ٹیکسٹائل، غذا اور مشروبات، پیٹرولیم مصنوعات، کاغذ اور گتہ، ادویات، کیمیکل، سیمنٹ، کھاد اور ربڑ کی مصنوعات شامل ہیں۔ ایم پی سی نے کہا کہ کووڈ وبا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کی فراہم کردہ تحریک ، پالیسی ریٹ میں کٹوتیوں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے بروقت اقدامات سے بحالی میں مدد مل رہی ہے۔ ان اقدامات میں قرضے کی اصل رقم کی ادائیگی کے وقت میں توسیع اورقرضے کی تشکیل نو، پے رول فنانسنگ اور عارضی معاشی ری فنانس سہولت (ٹی ای آر ایف) شامل ہیں جن کے ذریعے سیالیت فراہم کی گئی، ملازمین کی برطرفیاں کم ہوئیں اور سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات دی گئیں۔ زراعت کے شعبے میں کپاس کی پیداوار میں متوقع کمی کے اثرات کی تلافی دیگر اہم فصلوں میں نمو اور امدادی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گندم کی بلند پیداوار، اور کھاد اور کیڑے مار ادویات پر حال ہی میں اعلان کردہ زراعانت کی بدولت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ سماجی فاصلہ بدستور خدمات کے شعبے کے بعض حصوں پر ابھی تک منفی اثرات مرتب کر رہا ہے، تاہم تھوک اور خردہ تجارت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کو تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور زراعت میں جاری تیزی کے بالواسطہ اثرات سے فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔بیرونی شعبہ مسلسل بہتری کی راہ پر گامزن ہے اور پانچ برسوں سے زائد عرصے میں پہلی مرتبہ مالی سال 21ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران جاری کھاتہ فاضل رہا۔ مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں مثبت حدود میں رہنے کے بعد اکتوبر تک مجموعی جاری کھاتہ بڑھ کر1.2ارب ڈالر کے فاضل تک پہنچ گیا جبکہ گذشتہ برس کی اسی مدت میں 1.4ارب ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔ صورت ِحال کو بدلنے میں تجارتی توازن میں بہتری اور ریکارڈ ترسیلات ِزر سے مدد ملی۔ ستمبر اور اکتوبر میں برآمدات بحال ہو کر کورونا وائرس سے پہلے کی سطح تقریباً2ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ مضبوط ترین بحالی ٹیکسٹائل، چاول، سیمنٹ، کیمیکلز اور دوا سازی میں ہوئی۔ جولائی تا اکتوبر کے دوران ترسیلات ِزر میں26.5فیصد (سال بسال) کی مضبوط نمو ہوئی جس کی وجوہات میں شرح مبادلہ کے منظم حالات، حکومت اور اسٹیٹ بینک کے معاون پالیسی اقدامات، سفر پر پابندیاں اور باضابطہ ذرائع کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔ اس دوران پست ملکی طلب اور تیل کی کم قیمتوں کے باعث درآمدات اب تک قابو میں رہی ہیں۔جاری کھاتے میں خاصی فاضل رقم اور معیشت کے بہتر ہوتے امکانات اور احساسات کی بدولت ایم پی سی کے گذشتہ اجلاس کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں ساڑھے تین فیصد اضافے میں مدد ملی اور بیرونی بفرز مزید مضبوط ہوئے جس سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر12.9ارب ڈالر تک پہنچ گئے جوفروری2018ء کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔ اب تک کی کارکردگی کی بنیاد پر بیرونی شعبے کے امکانات میں مزید بہتری آئی ہے اور مالی سال21ء کے لیے جاری کھاتے کا خسارہ اب جی ڈی پی کے2فیصد سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
مالیاتی شعبہ کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ اس سال کے بجٹ کے مطابق حکومت مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی غرض سے مسلسل ٹھوس کوششیں کررہی ہے جن میں اسٹیٹ بینک سے نئے قرضے نہ لینے کا عزم شامل ہے۔ پست نان ٹیکس محاصل کے باوجود مالی سال 21ء کی پہلی سہ ماہی میں بنیادی توازن جی ڈی پی کا 0.6 فیصد فاضل رہا، جو گذشتہ برس کے اسی عرصے کے آس پاس ہے۔ تاہم بھاری ملکی سودی ادائیگیوں کے سبب مجموعی بلند بجٹ خسارے میں بتدریج کمی آنی چاہیے جب شرح سود میں حالیہ کمی کے فوائد پہنچنے لگیں۔اس سال ابتدائی چار ماہ میں پی ایس ڈی پی کی رقوم کے اجرا ، جو معاشی سرگرمیوں کا ایک اہم محرک ہے، میں 12.8 فیصد (سال بسال) اضافہ ہوا۔ محاصل کے سلسلے میں وبا کے دوران کاروباری اداروں کی مدد کرنے کے لیے ریفنڈز میں تیزی کے باوجود، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ، جو جولائی تا اکتوبر کے دوران 4.5 فیصد (سال بسال) درج کیا گیا اور وصولیاں ہدف کے قریب آگئیں۔ زری پالیسی اور مہنگائی کا منظرنامہ کے حوالے سے مرکزی بینک نے کہا کہ ایم پی سی کی نظر میں مجموعی مالی حالات مناسب اور سازگار رہے جس میں پیش بینی کی بنیاد پر حقیقی پالیسی ریٹ تھوڑا سا منفی رہا، اگرچہ نجی شعبے کے قرضوں کی نمو سال بسال بنیاد پر معتدل رہی تاہم اس کی ماہ بہ ماہ نمو کورونا وائرس سے پہلے کے رجحانات کی جانب گامزن ہے۔ چونکہ کمرشل بینکوں میں خطرے سے گریز کا رجحان بلند تھا اس لیے اسٹیٹ بینک نے کووڈ 19 کے دھچکے کے بعد عارضی اور ہدفی ری فنانس اسکیمیں متعارف کرکے نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی بڑھانے میں مدد دی۔ عمومی مہنگائی جنوری سے اب تک بڑی کمی کے بعد گذشتہ دو ماہ میں 9 فیصد کے قریب رہی جس کی بنیادی وجہ رسدی مسائل کے سبب منتخب غذائی اشیا کے قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہے۔ اس کے برخلاف قوزی مہنگائی قدرے معتدل اور مستحکم رہی جو معیشت کی مضمر طلب سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حالیہ حساس قیمت اظہاریہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ حکومت نے رسدی مسائل حل کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں ان اقدامات کے ساتھ ساتھ موافق اساسی اثر اور معیشت کی اضافی گنجائش کی بدولت مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملنی چاہیے۔ اسٹیٹ بینک کے حالیہ سرویز بھی اپنا وزن اس جائزے کے پلڑے میں ڈالتے ہیں جن میں کاروباری اداروں اور صارفین کی مہنگائی کی توقعات خاصی قابو میں ہیں۔ توقع سے بلند مہنگائی کے پیش ِنظر رسدی عوامل اور مہنگائی پر طلبی دباؤ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مہنگائی کے منظرنامے کو لاحق خطرات متوازن ہیں۔