پیر ‘ 7؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 23؍ نومبر 2020ء
عاشق رسولؐ کا تاریخی جنازہ۔ لاکھوں افراد شریک ہوئے
بے شک جو لوگ رسالت مآبؐ کی عظمت و حرمت اور ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں‘ عوام کے دلوں میں ان کی محبت خودبخود بحکم الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ مولانا خادم حسین رضوی بھی ایک سچے عاشق رسول تھے جنہوں نے عظمت رسولؐ اور اہلبیت و اصحابہ رسول کی حرمت و عظمت اور ختم نبوت کیلئے ساری زندگی بسر کی۔ ان کے جوش خطابت کے باوجود ان کا بیان سادہ اور آسان ہوتا تھا۔ ان کی تلخ نوائی اقبال کے بقول
’’ہو حلقہ یارا ںتو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن‘‘
کی عکاس تھی۔ ان کی وفات کی خبر سن کر ملک بھر سے ان کے لاکھوں چاہنے والے ان کے جنازے میں شرکت کیلئے لاہور آئے اور ملکی تاریخ کے بڑے بڑے اجتماعات میں ایک اور ریکارڈ اجتماع کا اضافہ ہوا جو اس بات کا گواہ ہے کہ مسلمانان عالم اور خاص طورپر پاکستانی مسلمان اپنے نبیؐ کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ یہی مشن علامہ صاحب مرحوم کا تھا جو انہوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کے تاریخی جنازے سے ان سیکولر اور لادین نظریات رکھنے والے نام نہاد لبرلز پر لرزہ طاری ہے۔ انہیں بھی علم ہو گیا ہے کہ اس ملک میں اللہ اور اس کے رسول کے چاہنے والے پر امن ضرور ہیں،کمزور نہیں‘ وہ ہر بے دینی طاقت اور قوت کی راہ روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دعا ہے اللہ کریم مرحوم خادم حسین رضوی کی قبر کو نور سے بھر دے اور انہیں شفاعت رسولؐ نصیب فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ ادارہ نوائے وقت لاکھوں عاشقان رسولؐ کے ساتھ مرحوم کے اہل خانہ کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ اللہ کریم انہیں بھی صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)
٭٭٭٭٭
والداور میرے خلاف تحقیقات، سیاسی
ڈر پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ایوانکا ٹرمپ
یک نہ شد دو شد۔ پہلے ٹرمپ کیا کم تھے کہ ان کی صاحبزادی بھی امریکی الیکشن کے خلاف کمر کس کے میدان میں کود پڑی ہیں۔ ان کا بیانیہ وہی ہے جیسا ہمارے ہاں ہارنے والے امیدواروں کا ہوتا ہے۔ اس وقت تو اس کی مشابہت بہت حدتک مریم نواز کے بیانیے سے ملتی جلتی ہے۔ دونوں کے بیانیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ایوانکا اپنے اور والد کے خلاف تحقیقات پر مشتعل ہیں اور اسے سیاسی ہراسگی کا نام دے رہی ہیں۔ مریم نواز اپنے اور والد کے علاوہ اپنے سارے خاندان کیخلاف مالی بدعنوانیوں کے کیسوں پر سیخ پا ہیں اور اسے سیاسی انتقام قرار دے رہی ہیں۔ خیر یہ قدرتی اتفاق بھی ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کی بات چھوڑیں یہ جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے اس پر کوئی کیا کہہ سکتا ہے ، زبان گنگ ہے۔ ایسا تماشہ پہلے کبھی امریکہ میں نہیں لگا۔ وہاں تو مہذبانہ طریقہ سے انتخابات ہوتے تھے۔ ہارنے والا جیتنے والے کو مبارک دیتا اور مقررہ وقت پر وائٹ ہائوس سے بوریا بستر اٹھا کر نکل جاتا۔ مگر ٹرمپ کی سیاست کی طرح اس کی ہر ادا ہی نرالی ہے۔ وہ دھاندلی کے راگ پر اچھل کود کر رہے ہیں۔ ان کے دیکھا دیکھی اب ان کی بیٹی بھی انہی کی بولی بول رہی ہے۔ مگر وہ بھی بخوبی جانتی ہیں کہ یہ عارضی شور و غل ہے جس پر شایدہی کوئی کان دھرے جنوری میں انہیں بہرحال وائٹ ہائوس چھوڑنا پڑے گا۔ اگر مزاحمت کی تو انہیں اٹھا کر باہر پھینکا بھی جا سکتا ہے…
٭٭٭٭٭
گورنر پنجاب اور فردوس عاشق اعوان
کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ
گورنر ہائوس کی اپنی دنیا ہے۔ اپنی رنگا رنگی ہے۔ جہاں کوئی غم کسی کو شاید ہی چھو کر گزرتا ہو۔ اسی لیے تو حکمرانوں نے یا اس عمارت کے بنانے والوں نے گورنر ہائوسز کی دیواریں بلند رکھی ہیں تاکہ عوام کی نظریں اندر کی دنیا میں نہ جھانک سکیں۔ بہرحال موجودہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ گورنر ہائوسز کی دیواریں گرا کر انہیں عوام کے لیے کھول دیں گے۔ کچھ عرصہ یہی کچھ دیکھنے کو ملا مگر اس کے بعد پھر وہی پہلے کی طرح دیواریں ، رکاوٹیں حائل ہو گئیں۔ اگر دیواریں نہ ہوتیں تو عوام کی بڑی تعداد بھی پودوں کی باڑ کے اس پار سڑک پر کھڑے ہو کر گورنر اور مشیر اطلاعات کے درمیاں کھیلا جانے والا یہ میچ دیکھ کر مسرور ہوتے ۔ گورنر پنجاب کو شاید علم نہیں کہ فردوس عاشق اعوان ایک اچھی کرکٹ پلیئر ہیں سابقہ دور حکومت میں ایک مرتبہ کھیلتے ہوئے ان کا ٹخنہ بھی اُتر گیا تھا۔ اب کی بار شکر ہے ایسا نہیں ہوا۔ البتہ گورنر پنجاب ایک مختصر رننگ کھیلنے کے بعد جلدہی آئوٹ ہوئے۔ تیسری گیند پر انہیںمشیر اطلاعات نے آئوٹ کر کے واپس پویلین پہنچا دیا۔ اس سے ثابت ہوا وہ اچھی بائولنگ بھی جانتی ہیں۔ بطور بلے باز پہلے ہی سب ان کی کارکردگی سے واقف ہیں۔ اس طرح گورنر اورمشیر اطلاعات نے گورنر ہائوس کو کرکٹ گرائونڈ میں بدل کر ماحول کو تھوڑا سا چینج کر کے سب کو خوش کر دیا…
٭٭٭٭٭
حجاب باضابطہ طورپر نیوزی لینڈ پولیس یونیفارم
کا حصہ۔ فخر محسوس کر رہی ہوں: کانسٹیبل زینا علی
مغربی دنیا کے ممالک بھی اب آہستہ آہستہ ہی سہی‘ حجاب کے معاملے میں نرم پالیسی اپنانے لگے ہیں۔ ان ممالک کو بنا سوچے سمجھے حجاب سے چڑ ہے۔ حالانکہ حجاب سے ملتا جلتا سکارف تو گرجاگھروں کی ’’نن‘‘ بھی سر پر رکھتی ہیں۔ پہلے ہسپتالوں میں نرسیں بھی ایسا ہی حجاب سر پر لیتی تھیں۔ اب اس کا سائزچھوٹا کر دیا گیا ہے۔ یورپ کے دیہی علاقوں میں آج بھی کسان کاشتکار خواتین سر پر رومال باندھتی ہیں۔ کیا یہ بھی سکارف نہیں۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم خواتین کو یہ حجاب ایک شناخت عطا کرتا ہے۔ اس سے یورپی ممالک کے انتہاپسند عناصر کو چڑ ہے۔ وہ مسلم خواتین کی اس شناخت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے کہ کبھی سر ڈھانکنے پر کسی ’’نن‘‘ کو تنگ کیا گیا ہو۔ چھیڑا گیا ہو ‘ مار پیٹا گیا ہو‘ اس کی توہین کی گئی ہو حالانکہ وہ بھی مذہبی تقدس کے طورپر سر ڈھانپتی ہیں۔ کوئی اور خاتون مغرب میں احتراماً سر ڈھانکے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا مگر ایک مسلم خاتون اگر مذہبی تعلیمات کے مطابق حجاب کریں تو انتہا پسند عناصر اس کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اب نیوزی لینڈ پولیس نے زیادہ سے زیادہ مسلم خواتین کو پولیس میں شامل کرنے کیلئے حجاب کو زنانہ پولیس یونیفارم کا حصہ بنا لیا ہے۔ جو ایک خوش آئند اقدام ہے۔ نیوزی لینڈ پولیس میں شامل مسلم کانسٹیبل زینا علی اس بات سے خاص طورپر بہت خوش ہیں کہ بالآخر انہیں حجاب پہن کر ملازمت کرنے کی سہولت حاصل ہو گئی۔