بہتری کی جانب گامزن پاکستانی معیشت !

گزشتہ برس نومبر2019 میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چین کے صوبہ وہان سے اٹھنے والا کرونا وائرس کا طوفان چندماہ کے اندر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر لاکھوں انسانوں کی زندگی کے چراغ گل کردے گا اور اس سے متاثر ہونے والے انسانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔ کرونا کی اس وبا نے صرف انسانی حیات کو ہی متاثر نہیں کیا ۔ دنیاکے جدید ترقی یافتہ ممالک کی معیشت بھی اوندھے منہ جاگری۔ انسانی عقل اس کے سامنے بے بس نظر آئی ۔ ترقی کا سفر رک گیا ترقی پذیر ممالک اس سے بھی کہیںزیادہ مشکلات کا شکار ہوئے۔ ان کیلئے اپنی آبادیوں کو فاقوں سے بچانا مشکل ہوگیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ روزگار ختم اور اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔ پاکستان جو پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا تھا کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی قومی دولت کی لوٹ مار ، رشوت ستانی ، ناجائز منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی اور عروج کو پہنچی ہوئی بدعنوانیوں، جھوٹ ، مکرو فریب کی وجہ سے ڈوبی ہوئی معیشت کو بچانے کی تگ ودو کر رہا تھا ۔ کرونا وبا کے اثرات ،معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے عمل میں روکاوٹ بنتے نظر آئے۔ عالمی معیشتوں کے بارے میں خبر رکھنے والا امریکی جریدہ’’بلوم برگ‘‘ اپنی 17 مئی کی اشاعت میں پاکستانی کرنسی کو پہلے ہی ایشاء کمزور ترین کرنسی قرار دے چکا تھا ، امریکی ڈالر کے سامنے پاکستانی روپیہ روز بروز گراوٹ کا شکار تھا ۔لوٹ مار کے عادی مافیاز ان حالات میں بھی اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے حکومتی اقدامات کو زیر کرنے کی کوششوں میں تھے کہ اوپر سے کرونا وبا کی آفت میں حکومت کیلئے معیشت کو سنبھالنے کے ساتھ ہی عوام کی جان و صحت کا تحفظ اولین ترجیح بن گیا ۔ جس میں اپوزیشن جماعتوں کا کردار بھی صرف حکومت کو ناکام ثابت کرنے اور اقتدار سے نکال باہر کرنے کیلئے باقاعدہ مہم کی شکل اختیار کرگیا۔
اس کے باوجود حکومت نے کرونا وبا کے تدارک اور معیشت کی بحالی کو چیلنج سمجھ کر اپنی ترجیحات مرتب کیں اور ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے مکمل ’’لاک ڈائون‘‘ کے طریقہ کار کے برعکس محدود پیمانے پر ’’لاک ڈائون‘‘ کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے عوام الناس کی نقل حرکت کو مکمل منجمند کرنے سے اجتناب کی حکمت عملی اختیار کی۔ دیہاڑی دار شہریوں اور نچلی سطح کے نجی ملازمین کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے ہوئے نادار کے پاس موجودان کی تفصیلات کے تحت خصوصی فنڈ کے ذریعے سب تک معقول رقم پہنچانے کا اہتمام کیا گیا ۔ یوں کرونا وبا کا تدارک آسان ہوا تو ساتھ ہی معیشت بھی کسی حد تک رواں دواں رہی۔ جس سے متاثر ہوکر عالمی ادارہ صحت بھی پاکستان میں اٹھائے گئے کرونا وبا کے خلاف اقدامات کی تعریف پر مجبور ہوگیا۔ سال گزرا اور 9نومبر 2020 کو امریکہ ہی کے جرید ے ’’بلوم برگ‘‘ نے ایشیا کی کرنسی ریٹنگ جاری کرتے ہوئے پاکستانی روپے کو خطے کی تیزی سے ابھرتی ہوئی کرنسی قرار دے کر سب کو حیران کردیا۔ سامنے آنے والی مزید تفصیلات کے مطابق پاکستان نے چالیس ارب ڈالر کے تجارتی خسارے سے جان چھڑ اکر اسے نہ صرف ختم کیا بلکہ اس مد میں پاکستان کو آمدن بھی شروع ہوگئی ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو کہ ساڑھے انیس ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا ۔ تاریخ میں پہلی بار صفر ہوا اور’’سر پلس‘‘ میں چلاگیا ۔ اکتوبر 2020 میں ’’لووی انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق برآمدات میں پاکستان نے بھارت اوربنگلہ دیش کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ رپورٹ میں دیے گئے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی’’ شپمنٹ گروتھ‘‘ 7، بھارت کی 6 اور بنگلہ دیش کی 3.5فیصد ریکارڈ کی گئی ۔ بتایا گیا کہ امپورٹس کو 60ارب سالانہ سے کم کر کے تقریباً 47 ارب ڈالر تک لایاجاچکا ہے۔جبکہ ایکسپورٹس وترسیلات زر کی مد میں 7ارب ڈالر کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا پر سوائے اپوزیشن جماعتوں و حکومتی کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر مبنی ہمہ وقت نشر کی جانے والی خبروں کی وجہ سے عوام اس حقیقت سے بے خبر رہے کہ پاکستان میں معیشت اور اقتصادی صورت حال دن بدن بہتری کی جانب گامزن ہے ۔ فیصل آباد کے اندر عرصہ دراز سے بندپاور لومز نہ صرف بحال ہورہی ہیں بلکہ نئی بھی لگنا شروع ہوچکی ہیں ۔ وہاں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس وقت فیصل آباد میں 2لاکھ ورکروں کی ضرورت ہے ۔ ’’لووی انسٹی ٹیوٹ‘‘کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں چاپان و چین کی طرف سے ملنے والے Ordersکی بدولت پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ جس کیلئے حکومت کی طرف سے سستی بجلی کی فراہمی کے اعلان سے توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میںپاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری و دیگر صنعتیں عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہونگی۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں معاشی ترقی کی اس رفتار کو عوام تک پہنچایا جائے تاکہ ملک کو ناکام ریاست ثابت کرنے اور پاکستانی عوام میں پاکستان سے متعلق مایوسی پھیلانے والے ان بیرونی ملک دشمن قوتوں کے پروپیگنڈے کا ازالہ ہوسکے ۔ جو پاکستان میں انتشار چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپنے سیکورٹی کے اداروں سے بدزن کر کے انار کی پھیلانے کے درپے ہیں۔ خود ساختہ مہنگائی بھی عوام کو مایوسی کے دلدل میں دھکیلنے کا ایک موثر ذریعہ ہے جس میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جو ا س طرح کی صورت حال پیداکرکے عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور مہنگائی کا ذمہ دار حکومت وقت کی پالیسیوں کو قرار دے کر عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں جس کا حل ان عناصر کے خلاف صرف قانون کے مطابق کاروائی نہیں، عوام کی طرف سے ان کا محاسبہ بھی ضروری ہے ۔ جس میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا نہ صرف عوام کی آواز بن سکتا ہے بلکہ عوام کی رہنمائی بھی کرسکتا ہے ۔