مولانا مودودی کی مذہبی وسیاسی خدمات

قائداعظمؒ کے ترجمان روزنامہ کو میں 1949 ء سے پڑھ رہا ہوں جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا نویں اور دسویں میں اسلامیہ ہائی سکول ڈیرہ غازیخان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’ خطبات‘‘ اور ’’رسالہ دینیات‘‘ پڑھایا جاتا تھا ۔ اسلامیہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر غلام قادر خان قیصرانی سکنہ قصبہ لاکھانی تحصیل تونسہ اور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر ملک اختر علی عربی ماسٹر مولانا محمد شفیع صاحب بلاک 12 تھے۔ میرے برادر بزرگ ڈاکٹر نذیر احمد شہید 8) جون (1972کے ہومیوپیتھک کلینک میں ان محترم حضرات کا آنا جانا تھا۔ اخبارات و رسائل بھی پڑھتے اور عام ملاقات و گفتگو بھی رہتی۔ میرے والد بزرگوار مرحوم و مغفور میاں اللہ بخش نماز ‘ روزہ اور خیرات و صدقات کے سلسلے میں خود بھی اور تعلقداروں کو تلقین فرماتے۔ گھر کا ماحول اللہ کے فضل و کرم سے مذہبی تھا۔ پورا خاندان ان پڑھ تھا‘ پہلا فرد جس نے تعلیم حاصل کی وہ ڈاکٹر صاحب تھے۔ ڈاکٹر کا پیشہ1946 ء میں ایمرسن کالج ملتان سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے صوبہ بہار ہندوستان میں مسلم کش فسادات میں ریلیف کے کام کیلئے جماعت اسلامی کے وفد کے ساتھ صوبہ بہار چلے گئے۔ یہ وفد غازی عبدالجبار جو مولانا مودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی کی گرفتاری کے بعد امیر جماعت اسلامی کے منصب پر سرفراز ہوئے۔ ملتان کے محمد باقر خان بی اے مرحوم بھی وفد میں شامل تھے پانچ ماہ کے بعد ڈاکٹر وہاں سے آکر ہومیوپیتھک کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر کے ڈیرہ غازیخان میں آگئے۔ اپنا کلینک بھی چلاتے اور مہاجر بھائیوں کے کیمپ میں دوا اور انکی دوسری ضروریات و حاجات کیلئے شہریوں کے ذریعہ امداد کا فریضہ ادا کرتے۔ والد بزرگوار نے بلاک 12 ڈیرہ غازیخان شہر میں اس وقت پتھر بازار اور اب قائداعظم روڈ پر چار دکانو ںکے کمرے اور پیچھے گھر تین کمروں برآمدہ کچن اور باقی ضروریات کیلئے تعمیرات کرا دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اول روز سے ڈیرہ غازیخان میں جماعت اسلامی کی تشکیل کر دی۔ جماعت کے اجتماعات اور دو روزہ تربیت گاہیں ہمارے اس مکان میں ہوتیں۔ بچوں کوآبائی گھر دیہات ’’نظام آباد‘‘ نزد فاضل پور تحصیل راجن پور بھیج دیتے۔ ڈاکٹر صاحب کی انتھک محنت اور پرخلوص جدوجہد کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کا تعارف بڑھنے لگا تو قبائلی اور سرداری تمنداری نظام اور حکومت وقت نے نگرانی اور پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ہم بھائیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا۔ عجب خوف اور پریشانی کے دن تھے مگر خدا کے فضل و کرم سے اور مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے لٹریچر کے مطالعہ اور ان سے ملاقاتوں اور تربیت سے کوئی لغزش نہ ہوئی ۔ دو درجن مقدمات بھگتے ۔ والد صاحب مارچ 1953 ء کو گردوں کی تکلیف کی وجہ سے وفات پا گئے۔ شروع شروع میں ڈاکٹر صاحب کے ایمرسن کالج ملتان سے تعلیم چھوڑنے پر ناراض تھے مگر جب بیٹے کو خدمت انسانیت اور دین کا کام کرتے دیکھتے تو خوش ہوتے اور خدا کا شکر ادا کرتے کہ میں ضلع جالندھر کے ایک گاؤں کا ان پڑھ کسان ہوں۔ پورا خاندان ان پڑھ ہے۔ تنگی ترشی میں زندگی بسر کرتے کرتے حکومت نے 1928 ء کو پنجاب کے کاشتکار چند گھرانوں کو آباد کاری سکیم کے مطابق جدید طرز پر زراعت روشناس کرنے کیلئے سرکاری زمین بعض شرائط پر دی۔ وا لد صاحب کو دو مربع سو بیگھہ بھی ملی۔ دن رات کی محنت سے اللہ تعالیٰ نے برکت دی۔ بستی نظام آباد میں پختہ مکان بن گیا‘ فصلات بہت اچھی ہونے لگیں۔ فاضل پور شہر جو بستی نظام آباد سے دو میل کے فاصلہ پر نزدیکی شہر تھا وہاں بسوں کے اڈہ پر ایک مسجد اور ایک کوواں (کھوہ) احداث کرایا۔ اس طرح ان کاموں سے دین کی اشاعت کیلئے بھی فضا سازگار ہوئی۔ مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور لٹریچر نے پورے ملک کو متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی شکیل کے ساتھ ساتھ طالب علموں اور طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کیلئے اسلامی جمعیت طلباء اورطالبات تشکیل دیکر انہیں لادینیت‘ دہریت‘ سوشلزم سے محفوظ کر کے والدین کے اس اثاثہ کو برباد ہونے سے محفوظ کر کے ان کے مستقبل کو تابناک بنایا۔ علامہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ نے اپنے کلام اور تقاریر سے قوم کو دین کی خدمت اور جداگانہ ملک کیلئے ابھارا‘ دو قومی نظریہ پیش کیا۔ قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت نے مسلم لیگ کے پرچم تلے ہندو بنیئے کی سازشوں اور انگریز دشمنی کا مقابلہ کر کے اللہ تعالیٰ سے قرآن و سنت کے قوانین کے تحت ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے ملک مانگا۔ اللہ نے پاکستان کی شکل میں یہ نعمت بخش دی۔ مولانا مودودیؒ نے اسلام شناسی‘ قرآن و سنت کی ترجمانی کا فریضہ سب سے بڑھ کر ادا کیا۔ الزامات کی بوچھاڑ کی پروا نہ کی نہ جواب دیا۔ مولانا مودودیؒ نے 1925 ء سے مسلسل دین اسلام کو آسان پیرایہ میں انسانوں کے سامنے اجاگر کیا۔ پہلے ’’الجمیتہ‘‘ کے ذریعہ پھر ترجمان القرآن کے ذریعہ زندگی کے ہر شعبہ کیلئے اسلام کا نقطہ نظر اجاگر کیا۔ ملک کے حق گو علماء کرام کے ساتھ انہیں اجتماعی جدوجہد کے ذریعہ اسلامی دستور کیلئے ہموار و تیار کیا جسکے نتیجہ میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی جو ملک کی بنیاد بنا۔