میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کی والدہ انتقال کر گئی ہیں۔ یہ دونوں بھائیوں اور ان کے خاندان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور دیگر حکومتی شخصیات کے تعزیتی بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ حکومت کو شریف برادران کو اپنی والدہ کی تدفین کے لیے ہر حال میں ہر طریقے سے سہولت دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ میاں برادران کی والدہ کے درجات بلند فرمائے۔ والدین کا تو کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، والدین کی بیماری یا انتقال پر کسی قسم کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔ کل نفس ذائقہ الموت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرتے رہنے چاہیے۔ ہر جانے والا ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور سب نے لوٹ کر جانا ہے۔
حکومت کی رٹ کہاں ہے؟؟؟ جیسے جیسے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آگے بڑھ رہی ہے یہ سوال شدت کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ ہر دوسرے معاملے حکومت کے اعلانات یا فیصلے چیلنج ہو رہے ہیں۔ حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے اور اس کے بعد عملدرآمد کے پہلو یا مرحلے کو مکمل طور پر بھول جاتی ہے یا پھر نظرانداز کر دیتی ہے اس مشق کے دو بڑے نقصانات سامنے آ رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ عوامی سطح پر حکومتی فیصلوں کی وقعت ختم ہوتی جا رہی ہے اور عوام نے سنجیدگی سے سجھنا شروع کر دیا ہے کہ ملک ہر غیر سنجیدہ افراد کی حکومت ہے، ملک ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں ہے، ملک غیر سنجیدہ قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔ عوامی سطح پر پھیلتا ہوا یہ تاثر ہر فیصلے کو مذاق بنا رہا ہے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر حکومت کی مقبولیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسرا سب سے اہم پہلو فیصلوں یا اعلانات کو نہ ماننے سے انتظامی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ بظاہر یہ دونوں پہلو اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اور تباہی کے اعتبار سے درجہ بندی میں ایک دوسرے پر برتری کے جانے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ دونوں پہلوؤں میں حکومت کی عدم دلچسپی کا نقصان ملک و قوم کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور برداشت کرنا پڑے گا۔
وزراء کی ساری توجہ میڈیا میں اپنے حصے کی جگہ حاصل کرنے پر ہے۔ وہ بیانات کا جواب دینے یا بیانات جاری کرنے کی حد تک تو حکومت کا حصہ ہیں لیکن فیصلوں کے نفاذ یا عملدرآمد کے معاملے میں چیزیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہے کہ خلق خدا ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے اور ہر گذرتے دن ہے ساتھ حکومت کی ساکھ کو کتنا نقصان پینچ رہا ہے۔ وہ گرم یا ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر وڈیو بنانے اور جاری کرنے کے نہایت آسان اور غیر ضروری کاموں میں مشغول ہیں۔ ان کے اس معمول کی وجہ سے حکومت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو کئی اہم معاملات میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کہیں فیصلے بدلنا پڑے ہیں تو کہیں عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس بگڑتی صورتحال کا اندازہ شاید وزیراعظم عمران خان کو نہیں ہے یا پھر ان کے پاس یہ سوچنگ کے لیے وقت ہی نہیں ہے کہ آخر حکومتی رٹ ختم ہونے کا نقصان کس کو ہوتا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے اور حکومت مسلسل اہم فیصلوں کے باوجود عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے کن مسائل سے دوچار ہے۔ وزیراعظم عمران خان نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں لیکن ان کے ساتھیوں کی سستی، نالائقی وناتجربہ کاری وزیراعظم کو پیچھے دھکیلتی رہتی یے۔ وزیراعظم بار بار ایک بیان دہراتے ہیں خبردار کرتے ہیں لیکن نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں کو ہی لے لیں اگر حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ پشاور میں پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر اس فیصلے پر ہر حال میں عملدرآمد ہونا چاہیے تھا۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ حکومت ایک فیصلہ کرے اور پھر اس پر عمل نہ کروا سکے۔ بالخصوص بڑے عوامی اجتماعات کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے اس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے اور جس کا جو دل کرتا ہے وہ کر گذرے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے، حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تاثر سزا اور جزا کے نظام کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ حکومت کا فیصلہ تھا کہ جلسہ نہیں ہو گا تو پھر جلسہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہاں یہ بحث ضرور ہے کہ حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ اگر حکومت فیصلہ کر چکی تھی تو پھر سب سے پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا، حزب اختلاف کی جماعتوں سے بات چیت کے دور ہوتے، سیاست دانوں کو پارلیمانی روایات کے مطابق بات چیت سے قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اس مقصد کے لیے سنجیدہ اور قابلِ قبول شخصیات پر مشتمل کمیٹی قائم کی جاتی اس کمیٹی کا اختیار دیا جاتا کہ وہ حسب اختلاف کی جماعتوں کو ہر حال میں پشاور جلسے سے روکنے کے لیے قائل کرے۔ حکومت نے کسی بھی مرحلے ہر اس طرف سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ حالانکہ یہ سب سے موثر اور بہترین راستہ ہے کیونکہ سیاست دان ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، باتیں مانتے ہیں اور ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے سہولت ہیدا کرتے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود تمام افراد بخوںی جانتے ہیں کہ وقت بدلتا رہتا ہے، بنچوں پر بیٹھنے کی ترتیب بھی بدلتی رہتی ہے اور سب کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کرتی نا ہی ساتھی سیاستدانوں کو خالی ہاتھ لوٹاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریکِ انصاف نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے بیانات کے ذریعے سیاسی درجہ حرارت میں شدت کے فارمولے پر عمل کیا ان کے وزراء بیانات داغتے رہے، برا بھلا کہتے رہے اور اس عمل میں وہ یہ بھول گئے کہ حکومتی فیصلے کے برعکس پشاور میں جلسے کا انعقاد ہی حکومت کی ناکامی کی دلیل ہے۔ اگر کرونا کے حوالے سے مشکل ترین حالات میں بھی حکومت اجتماعات کو روکنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ سند ہے کہ آپ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جہاں جب جو چاہتے ہیں کرتے رہیں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ اس ناکامی کے بعد یہ بحث ہی بے معنی ہو جاتی ہے کہ پشاور جلسے میں شرکاء کی تعداد کم تھی یا زیادہ تھی۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے جلسے کے انعقاد سے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا اور جلسہ کر کے حکومت کو ناکام ثابت کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کل کلاں یہ طرز عمل ان کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے لیکن اس وقت کیا حالات ہوتے ہیں، سیاسی قوتیں کیسے فیصلے کرتی ہیں لیکن سردست حزب اختلاف نے حکومت کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔حکومت کو پہلی صورت میں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا، دوسری صورت میں وزیراعظم خود حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان ڈیمو کریٹک کے قائدین سے رابطے کرتے اور انہیں کسی بھی صورت قائل کرنے کی کوشز کرتے اگر یہ کوشش بھی ناکام رہتی تو پھر آخری اور انتہائی عمل طاقت کے استعمال کی صورت میں موجود تھا پھر طاقت کا استعمال ناگزیر تھا اور حکومت کو یہ جلسہ طاقت استعمال کرتے ہوئے روکنے چاہیے تھا لیکن حکومت کسی بھی بہتر راستے کو اپنانے میں ناکام رہی ہے۔ بھلے طاقت کا استعمال ہوتا لیکن حکومت کی رٹ قائم ہوتے نہر آنی چاہیے تھی۔ رٹ قائم کرنے کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جاتا تو ملک میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سخت پیغام جاتا، اپوزیشن کو بھی اندازہ ہوتا کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز بھی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ملک میں قانون توڑنے والے ہر شخص کو یہ پیغام جاتا کہ قانون شکنی کی صورت میں یا قانون ہاتھ لینے کا انجام برا ہو گا۔ جب یہ سوچ نچلی سطح تک جاتی ہے تو مجموعی طور پر ناصرف امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی ہے بلکہ اس کا اثر تمام شعبوں پر پڑتا ہے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے اکابرین اور وزراء کے پاس شاید اتنی گہری سوچ کا وقت نہیں ہے یا ہھر ان کی سوچ میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ اس انداز سے معاملات کو پرکھ سکیں یا اس انداز میں سوچ کر بہتر فیصلے کر سکیں۔یہی وہ طرز حکومت ہے جس کے بعد وزراء کے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، لوگ انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے اور نظام کا مذاق بن جاتا ہے۔ حزب اختلاف کے جلسے نے حکومت کا مذاق بنایا ہے، حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا ہے اور حکومت نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ قانون توڑتے پھریں اور دندناتے پھریں۔حکومتی رٹ کی بات کرتے ہوئے جب مختلف شعبوں پر نظر دوڑائی جائے تو واضح طور پر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ صرف پی ڈی ایم جلسے ہی نہیں ہر دوسرے شعبے میں حکومتی رٹ کا مذاق بنا ہوا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان اب تک درج بھر نوٹسز لے چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہو بلکہ ہر نوٹس کے ساتھ مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر حکومتی رٹ قائم ہوتی تو کسی کی کیا مجال تھی کہ ریاست کو بلیک میل کر سکتا۔ آج سبزیوں کی قیمتوں میں بیپناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کبھی سو روپے میں پانچ کلو آلو ملا کرتے تھے اب آلو سو روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں، کبھی سردیوں میں گاجریں پچاس یا ساٹھ روپے میں پانچ کلو ملتی تھیں آج ستر اسی روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہیں۔ جو حکومت ادرک کی قیمتوں کو قابو نہ کر سکے اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سیب اور آلو ایک ہی بھاؤ یا قریب قریب ہی فروخت ہو رہے ہیں۔ حکومت کے فیصلہ سازوں کے لیے یہ بھی ایک چیلنج ہے۔ حکومت کے نمائندے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں پر ردعمل دینے تو فوراً پہنچ جاتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ بائیس کروڑ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں لیکن اس مسئلے ہر بولنے کے لیے کسی کے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں نا کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ عام آدمی کے مسائل پر گفتگو کر سکے۔ جہاں سوچ کا یہ معیار ہو گا وہاں خاک حکومت کی رٹ قائم ہو گی۔مرغی کے گوشت کو دیکھ لیں لاہور میں یہ بعض علاقوں میں تین سو پچاس روپے یا اس سے بھی زائد فی کلو فروخت ہو رہا ہے لیکن حکومت کے پاس یا اس کے متعلقہ وزیروں کے پاس اتنا وقت یا معلومات ہی نہیں ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر حقیقت عوام کے سامنے رکھ سکیں۔ دراصل کرونا کی وجہ سے پولٹری کے کاروبار میں بہت نقصان ہوا اور اس نقصان کی وجہ سے کاروبار بند ہوا۔ کاروبار بند ہونے سے سپلائی اور ڈیمانڈ کا توازن خراب ہوا اور آج سپلائی اور ڈیمانڈ بری طرح متاثر ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اب یہ بتانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ سب چیزیں حکومت کی رٹ سے جڑی ہیں۔ جہاں جہاں حکومت کی رٹ قائم ہونی چاہیے وہاں وہاں حکومت کمزور اور اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہے نتیجہ یہ ہے کہ ہر ظرف چیخ و پکار ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی طریقے سے حوصلہ افزا نہیں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024