10 نومبر کی رات بشیر صاحب کے دل وحشی نے ہر رگِ جاں سے الجھنا شروع کر دیا۔ مہینہ بھر سے ڈاکٹروں کے بے رحم نشتر انکے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھولے چلے جا رہے تھے۔ دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی چلی گئیں اور درد والم ویرانہ تن میں جاگزیں ہو کر سلسلہ وار رخصت کا طلبگار دکھائی دیا۔ آخر کار بشیر صاحب بھی عازم سفر آخرت ہوئے وہ شعیب بن عزیز کی بات مان گئے …؎
خوف اور خواہش کے درمیان نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی، اب یہاں نہیں رہنا
بشیر صاحب کے سایہ عاطفت میں میرے پچاس سال گزرے۔ میں نے انکی آغوش میں زندگی کے تمام تر مراحل طے کئے۔ وہ ہر دم، ہر گھڑی اپنی محبتوں، شفقتوں اور جذبوں کی بے لوث روشنی چار سو بکھیرتے رہے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے عالی کردار، سادگی، عاجزی اور خلوص سے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو مہکاتے رہے۔ وہ صاحب علم انسان تھے۔ انکا قرآن، حدیث، فقہ اور اسلامی امور پر اسقدر مطالعہ تھا کہ انہیں مستند حلقے اتھارٹی تسلیم کرتے تھے۔ وہ تین سیدوں سے عشق لازوال کے رشتے سے جڑے ہوئے تھے۔ سید مودودیؒ جن کے قدموں میں وہ 22 سال کی عمر میں بیٹھ کر قرآن اور حدیث کی شرح لفظ بلفظ لکھتے رہے دوسرے سید سلیمان ندوی جن سے وہ کراچی میں ملے اور اکتساب ذات کا فیض حاصل کیا۔ تیسرا سید قطب کے وہ عاشق تھے اور دنیائے اسلام میں اسلامی تحریکوں کا گہرا مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے تھے۔ وہ شاندار ادبی نثر لکھتے تھے۔ تمام عمر سرکاری کالجوں میں درس و تدریس سے منسلک رہے اور آخر میں بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئے۔ دینی امور کے متعلق ہزاروں تشنگان علم کو زندگی کی صحیح حقیقتوں سے روشناس کرانے کیلئے زندگی کے کئی برس وقف کئے رکھے۔ وہ توکل اور قناعت کے ساتھ درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ کسی سے بھی قطعاً مرعوب نہیں ہوتے تھے اور سچی بات کسی کے سامنے کہنے سے عار نہیں محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ڈاکٹر این میری شمل سے بھی گھنٹوں مکالمہ کیا اور اکثر اوقات وہ مناظروں اور مجادلوں میں بھی کئی کئی گھنٹے دین اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کرنے پر زور دیتے جو قرآن، حدیث اور سنت کے عین مطابق ہیں وہ اپنے لیکچرز میں بڑے مدال انداز میں پرویزی اور قادیانی فتنوں کو اجاگر کرتے۔ وہ دین اسلام کی عملی تعبیر کے مطابق نہ صرف خود زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے بلکہ دوسروں کو بھی سختی سے اس پر عمل پیرا ہونے کا وعظ کرتے رہتے۔ ہم اکثر انہیں منع کرتے کہ وہ کیوں اپنا نقطہ نظر دوسروں پر زبردستی تھوپ رہے ہیں مگر وہ اللہ اور رسول کے ہر حکم کو عقلی طور پر ثابت کر دیتے اور وہ اس پر سینکڑوں حدیثوں، قرآنی آیات اور تفسیروں کا حوالہ دیتے جو انکے لوح ذہن میں نقش تھیں۔ انہوں نے اپنے تمام بچوں اور پوتے پوتیوں کو کئی مرتبہ قرآن پاک کی قرأت، ترجمہ، تفسیر اور مفہوم سے روشناس کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انکے کرموں کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں اور اعلیٰ ترین دنیاوی مناصب پر فائز ہیں۔ میرے ساتھ انکا رشتہ درد اور احساس کا تھا۔ انہوں نے مجھے اعتماد اور جرأت سے بات کرنے کا حوصلہ دیا۔ وہ سود و زیاں سے پاک تھے۔ انہیں جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات سے مکمل ناواقفیت تھی۔ انہوں نے ساری عمر نہ تو ٹی وی لگانا سیکھا اور نہ ہی وہ سائیکل سے لیکر کار تک چلا سکتے تھے۔ وہ ٹیلیفون تک آن اور آف کرنے سے آشنا نہ تھے۔ وہ 80 سال سے زائد عمر تک تہجد اور نماز روزہ، تراویح باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔ وہ زندگی میں بڑے سادہ تھے اور ہر بات سیدھی کرتے تھے۔ منافقت، حسد اور زندگی میں مادی لوازمات حاصل کرنے کی خواہش اور جذبہ ان میں مقصود تھا وہ واقعی ہی ایسے انسان تھے جن کے متعلق بلا شبہ کہا جا سکتا ہے …؎
مت سہل جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
وہ کس قدر خوبصورت نثر لکھتے تھے اور چھوٹے بچوں کی کس انداز میں تربیت کرتے تھے اسکا ایک نمونہ ضرور پیش کرونگا تا کہ والدین کو معلوم ہو کہ چھوٹے بچوں کو کس طرح زندگی گزارنے کے اعلیٰ و ارفع اصولوں سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ وہ اپنی پوتی غنا مہر کو کچھ اس انداز میں خط تحریر کرتے ہیں ’’تم سدا سلامتی اور عافیت سے رہو۔ رنگ، خوشبو، روشنی، ستارہ، جگنو اور تتلی کے نام، جب مجھے یہ خبر ملی کہ تمہیں ایک اچھے سکول میں داخلہ مل گیا اور تم بڑی ہو کر آرٹسٹ بننا چاہتی ہو تو پیاری بیٹی بڑی خوشی ہوئی کہ تمہیں آرٹ سے لگن ہے۔ آرٹ تو زندگی ہے، سلیقہ ہے، ہنر مندی ہے آرٹ تو پاپا کا پیار ہے، آرٹ تو ماما کی چاہت ہے، اپنے سب رشتوں کے ساتھ، ادب و احترام سے پیش آنے کا نام آرٹ ہے۔ صاف ستھرا رہنے کا نام آرٹ ہے، آہستہ بات کرنے کا نام آرٹ ہے۔ پیاری بیٹی، تمہارا نام دو الفاظ کا مرکب ہے ایک چیز غنا ہے اور دوسری مہر۔ غنا کے معنی ہے گیت، ایک اچھا گیت جس میں دوسروں کیلئے خوشی کا پیغام ہو۔ اور دوسروں کے دکھ درد میں شرکت اور ان سے ہمدردی کا اظہار ہو۔ غنا کا معنی ہے بے نیازی یعنی دنیا کی جھوٹی شان، مکر و فریب اور لالچ سے خالی دل کا نام غنا ہے اس دل میں سچ، صفائی، مہر و محبت کی دولت کے خزانے بھر جاتے ہیں۔ اصل دولت تو دل میں ہوتی ہے۔ جیب میں نہیں جو کسی دوست کو دھوکا دے اسے بے مہر کہتے ہیں یعنی وہ مہر سے خالی ہے مہر کے معنی سورج بھی ہیں وہ سورج جو خدا کے حکم سے اپنی گرمی اور تپش سے تمام دنیا کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ فصلیں، میوے اور پھل پک رہے ہیں انسان، جانور اور پرندے سب اس مہر سے زندگی کی حرارت حاصل کر رہے ہیں۔ اس لئے اے میری ننھی منی آرٹسٹ، اپنے نئے ادارہ میں اپنی غنا اور اپنی مہر سے اپنی ٹیچرز کی عزت کرو۔ اپنے سکول کے ساتھیوں کا کبھی دل نہ دکھائو۔ خاص کر غریب ساتھیوں کو کبھی نہ احساس دلائو کہ وہ کمتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی میں آرٹ اور ادب کی ساری باتیں سکھائے، آمین، ثم آمین۔ تمہارے دل کے قریب ایک دور افتادہ تمہارا دادا‘‘۔
پھر وہ لاہور سے راولپنڈی شفٹ ہو گئے پریڈ لین کے بم بلاسٹ میں شدید زخمی بھی ہوئے مگر اللہ نے انکو دوبارہ نئی زندگی عطا کر دی۔ وہ اکثر میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جاتے تو عابدہ پروین، اقبال بانو کی آواز میں فیض احمد فیض کا کلام سنتے۔ وہ اپنی رفقیہ حیات امینہ بانو سے شدید محبت کرتے تھے اور انکی ہر بات مانتے تھے، سوائے دین اور شریعت کے معاملات کے۔ وہ انہیں دینی معاملات میں ہمیشہ گائیڈ کرتے رہتے تھے۔ دونوں نے مل کر رزق حلال سے اپنے بچوں کی پرورش کی اور ایثار اور قربانی کی انمول داستانیں رقم کیں۔ آج انکے دو بچے، بیورو کریٹ، ایک امریکہ میں ملازمت کرتا ہے اور ایک میں بد نصیب جو چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر آخری ایام میں انکی خاطر خواہ خدمت نہ کر سکا۔ آج جب اپنے گھر میں اردگرد نگاہ ڈالتا ہوں تو رنج و الم کے گہرے سائے دل و جاں کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں …؎
دیکھتا ہوں تو سبھی کچھ ہے سلامت گھر میں
سوچتا ہوں تو تیرے بعد رہا کچھ بھی نہیں
میرے آفس میں ارشاد احمد حقانی، نسیم انور بیگ، محترم مجید نظامی اور جمیل فخری کی تصاویر آویزاں ہیں انکی بھی تصویر موجود ہے۔ سبھی مرشدان دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان سب سے مجھے شدید عشق اور محبت تھی۔ ایسی انمول ہستیاں اب کہاں ملتی ہیں کچھ ایسے بھی لوگ اٹھ جائینگے اس بزم سے ڈھونڈنے نکلو گے جنہیں مگر پا نہ سکو گے۔
میرے والد میرا عشق تھے۔ میری چاہت کا مرکز تھے۔ انکا چہرہ ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہتا ہے۔ مگر رضائے الٰہی کے آگے ہمیں سر جھکانا ہے۔ کیا کروں یہ کیفیت ہے …؎
وہ عکس بن کر میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
گزارش احوال من کہے بغیر میں کیسے جیوں۔ ذاتی دکھ قومی اخبارات میں بیان کرنا قابل تحسین عمل تو نہیں ہے۔ مگر بشیر صاحب کے ہزاروں عقیدت مند جو پاکستان کے گوشے گوشے میں موجود ہیں۔ اپنے دوستوں، احباب اور قارئین سے خصوصی درخواست ہے کہ یہ انکی وفات کی پہلی جمعرات ہے اس پر تین دفعہ درود پاک اور قل شریف پڑھ کر انکی مغفرت کیلئے دعا کر دیں، احسان عظیم ہو گا …؎
کھو گیا ہوں غموں کے صحرا میں
توں کہاں ہے ذرا پکار مجھے