پیر ، 21 شوال 1443ھ‘ 23 مئی 2022ء
بارش برسانے والا سسٹم لاہور میں داخل ہو رہا ہے
خدا کرے یہ بارش برسانے والا سسٹم جلد از جلد لاہور میں ناصرف داخل ہو بلکہ جل بھی ایک کر دے۔ اس وقت شدید گرمی نے لاہوریوں کا دماغ بھک سے اڑا دیا ہے۔ دور دور تک بارش کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ تیز دھوپ سے کیا انسان کیا حیوان چرند و پرند تک زبان نکالے بے بسی سے رحمت باری کے منتظر ہیں۔ خدا کرے محکمہ موسمیات والوں کی بات درست ثابت ہو اور لاہوریوں کو اس گرمی سے نجات ملے ورنہ اس وقت تو
اب کے نہ ساون برسے
اب کے برس تو برسیں کی انکھیاں
والا منظر سامنے ہے۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ نے تو موسم کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ یوں چاروں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ آسمان سے آگ برس رہی ہے۔ زمین سے آگ نکل رہی ہے۔ گرم ہوا جھلسا رہی ہے۔ کہیں سے بھی ایک پل کو چین نہیں۔ ایسے میں اب باران رحمت کا انتظار ہے کہ وہ جلد آئے اور جم کر برسے۔گرمی کا قہر ٹوٹے اور لوگ راحت کا سانس لیں۔ باقی کئی شہروں میں ابر رحمت ایک نہیں کئی بار کھل کر برسا مگر لاہور میں
سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل
مگر یہ شہر تو پیاسا کھڑا ہے
والی کیفیت ہے۔ خدا کرے برکھا برسے گٹھائیں آسمان پر چھائیں اور دھیمی دھیمی ٹھنڈی ہوائیں لاہوریوں کے لئے سکون کا پیغام لائیں
٭٭٭…٭٭٭
بلوچستان کے جنگل میں لگی آگ پر تیرھویں روز بھی قابو پایا نہیں جا سکا
بے شک یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم ایک ایٹمی ریاست ہیں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آگ پر قابو پانے کا کوئی منظم و مکمل نظام ہی موجود نہیں۔ قدرتی آفات میں زلزلہ سیلاب اور آگ کو خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے۔ قومی سطح پر بھی قدرتی آفات سے بچاؤ کے لئے محکمہ بنا مگر اس کی کارکردگی بھی کوئی خاص متاثر کن نہیں رہی۔ دیگر نجی امدادی ادارے ان آفت زدہ علاقوں میں اس قومی محکمہ قدرتی آفات سے پہلے پہنچ کر کام شروع کرتے ہیں۔ بلوچستان جو پہلے ہی پریشانیوں کا شکار ہے۔ اب وہاں 13 دن ہونے کو آئے ہیں۔ ژوب اور ڈی آئی خان کے درمیانی علاقے شیرانی اور اس سے ملحقہ علاقوںمیں اونچے پہاڑوں پر قائم چغلوزہ اور زیتون کے جنگلات میں آگ لگی ہے جو تاحال بجھائی نہیں جا سکی۔ بجھانا تو دور کی بات حکمرانوں کی توجہ ہی اس طرف مبذول نہ ہو سکی۔ دنیا بھر میں جنگلات کی آگ کو تو لیڈ سٹوری بنایا جاتا ہے تاکہ ماحولیات کا تحفظ کرنے والے سرکاری اور نجی ادارے فوری طور پر اس آگ پر قابو پانے کے لئے آگے آئیں مگر افسوس ہمارے ہاں احساس کی آنکھ دیر سے کھلتی ہے۔ اس وقت تک ’’خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘ کا نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت مقامی افراد آرمی کی ٹیمیں اور ایف سی والے اپنی کوششوں میں لگے ہیں۔ برادر ملک ایران سے بھی ایک آگ بجھانے والا طیارہ آ گیا ہے۔ پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹر پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔ مگر گرم موسم اور خشک و تیز ہوائیں آگ بھڑکا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے 40 کلومیٹر کے علاقے میں جنگلات راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔
٭٭٭…٭٭٭
ایوان صدر اور وزیراعظم کے درمیان گورنر پنجاب لگانے کے تنازعے پر خطوط کے تبادلے
چچا غالب نے بہت پہلے متنازعہ خطوط کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو ہیں عاشق تمہارے نام کے۔
مگر یہ دل لگی تھی عشق کے معاملات تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں آج کل جو سیاسی خط و کتابت ہو رہی ہے۔ وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے جوصورتحال اس وقت شہر اقتدار اسلام آباد میں بھی جاری نظر آ رہی ہے۔ خط و کتابت کی وجہ گورنر پنجاب کی تعیناتی کا مسئلہ ہے۔ جس پر صدر اور وزیراعظم کی آفس میں نہیں بن رہی۔ ایک گورنر پنجاب کو ہٹانا چاہتا ہے دوسرا اسے برقرار رکھنے پر بضد ہے۔ صدر مملکت عارف علوی اپنی جماعت کے عمر سرفراز چیمہ کو گورنری کے عہدے پر برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم کی طرف سے نئے گورنر لگانے کی سمری یعنی خط کے جواب میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب وزیراعظم نے دوسرا خط لکھ کر وزیراعظم کو اپنی ایڈوائس پھر دوہرائی ہے۔ اب دیکھتے ہیں اسکا جواب کیا آتا ہے۔ فی الحال تو
نامہ بر تو ہی بتا تونے تو دیکھے ہونگے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
اگر صدر مملکت نے دس روز تک اس کا جواب نہیں دیا تو گورنر پنجاب کو ہٹانے کے چانس بڑھ جائیں گے۔ یوں پنجاب میں جاری بحران کے خاتمے کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔ بڑوں نے درست کہا تھا۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ اب بھی یہی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ پنجاب میں جاری بحران کی وجہ سے تمام سرکاری کام ٹھپ پڑے ہیں۔ خط و کتابت سے ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے تو بہتر ہے۔ جب آئین اور نظام موجود ہے تو پھراس سے انحراف کسی کو نہیں کرنا چاہئے۔
٭٭٭…٭٭٭
تحریک انصاف کور کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد
یہ اجلاس خدا جانے عمران خان کی گرفتاری کے خوف سے وہاں منعقد ہوا۔ یا پھر ہو سکتا ہے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے خیبر پی کے جو ان کا اپنا مرکز ہے۔ جہاں دوسری مرتبہ ان کی حکومت پورے طمطراق سے قائم ہے۔ میں یہ اجلاس بلانے میں یہ عافیت سمجھی ہے۔ مگر اس کے باوجود وہاں کے وزیراعلیٰ فرماتے ہیں کہ موجودہ حکومت سے بہتر ہے ہم افغانستان چلے جاتے۔ تو بھئی انہیں روکا کس نے ہے۔ بسم اﷲ کریں پھر دیکھیں ان جیسوں کو جو عیاشی دستیاب ہیں وہ وہاں افغانستان میں کہاں ملنی ہیں۔ وہاں یہ سب طالبان کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے پر خودکشی کو ترجیح دیتے نظر آئیں گے دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ مگر کیا کریں جب عمران خان موجودہ حکومت کی بجائے ملک پر ایٹم بم گرانا بہتر خیال کرتے ہیں تو ان کے چیلے چانٹے بھی شاید یہی چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان چلے جائیں اور پیچھے سے پاکستان پر ’’خاکم بدہن‘‘ ایٹم بم گرایا جائے۔ تاکہ جب یہ بھوکے ننگے واپس آئیں تو ویران گلیوں میں مرزے یار کی طرح ناچتے گاتے نظر آئیں۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ جس نے پاکستان سے جانا ہے جائے تاکہ یہاں کی دھرتی سے بوجھ کم ہو۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ یوں تو یہ سب موت سے نہیں ڈرتے کا راگ الاپتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ بنی گالہ جیسے حفاظتی قلعہ میں بھی ڈرے سہمے مزید سکیورٹی مانگنے کے باوجود اجلاس نہیں کرتے کہ مرنے کا خوف تو دور کی بات گرفتاری کا خوف ان کا پتا پانی کر رہا ہوتا ہے۔ اب تحریک انصاف کے اہم اجلاس میں ہونے والے فیصلے پر دیکھتے ہیں کہ عمل درآمد کیسے ہوتا ہے۔