معزز قارئین! جمعۃ اُلوداع تو گزر گیا ۔ عید اُلفطر اتوار ( 24 مئی ) کو ہوگی یا پیر (25 مئی ) کو ۔ اِس کا فیصلہ آج رات یا کل رات ہو جائے گا۔ مجھے تو اِس بات سے خوشی ہے کہ ’’پنجاب میں 544 مزارات کھولنے کا فیصلہ کرلِیا گیا ہے ۔ ٹرانسپورٹ اور ٹرنیں چل پڑی ہیں۔ اب "Lockdown" کے بجائے "Train Up" ۔ "Train Down" کا دَور آگیا ہے ۔ اللہ خیر کرے! شیخ رشید احمد سے میرا پرانا تعلق ہے ۔ سال میں ایک مرتبہ اسلام آباد کی کسی تقریب میں جب میری اُن سے اچانک ملاقات ہوتی ہے تووہ مجھ سے بھرپور جپھّی ڈال کرمجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتے ہیں ۔
اور اِس طرح میری بڑی ’’ ٹہور‘‘ بن جاتی ہے ۔میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دَور میں خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے تھے ، جب عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد نے 20 جون 2014ء کو راولپنڈی سے کراچی تک "Train March" کا اعلان کِیا۔ عوامی مسلم لیگ کے "Media Cell" کی طرف سے مجھے بھی ’’ ٹرین مارچ‘‘ میں شرکت کی دعوت دِی گئی ، مَیں خُوش ہوا تھا۔ دراصل مَیں نے لاہور / راولپنڈی سے کراچی ٹرین کا سفر کبھی نہیں کِیا، جب بھی کراچی گیاتو"By Air" گیا ، پھر خواجہ سعد رفیق نے بیان دِیا کہ ’’ شیخ رشید احمد ٹرین کے مسافروں کو یرغمال بنا لیں گے! ‘‘۔
مَیں نے اپنے 18 جون 2014ء کے کالم میں لکھا کہ ’’ شیخ صاحب مسافروں کو کیسے یرغمال بنا لیں گے ؟ بہرحال مَیں خُوش تھا کہ ’’ 12 سال کے بعد مجھے ریلوے سٹیشن راولپنڈی پر شیخ رشید احمد صاحب سے ملاقات پر اُن کے ساتھ جپھّی ڈؔالنے کا موقع ملے گا اور اُن سے ’’ہلکی پھلکی موسیقی ‘‘ سننے کا بھی!، پھر خواجہ سعد رفیق کے اِس بیان نے مجھے خوفزدہ کردِیا کہ ’’ مَیں نے انسپکٹر جنرل آف پولیس ریلویز کو ہدایت کردِی ہے کہ ’’ 20 جون کو راولپنڈی ریلوے سٹیشن کے ہر پلیٹ فارم پر ہر مسافر کو الوداع کرنے والے شخص کی جامہ تلاشی لی جائے !‘‘۔ میری خوشیاں مایوسیوں میں ڈھل گئیں۔ دراصل ’’تلاشی ‘‘ میری بڑی کمزوری ہے ، مَیں اپنے بچوں اور اُن کے بچوں سے ملنے کے لئے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا جاتا ہُوں تو ائیر پورٹ پر جب بھی میر ی تلاشی لی جاتی ہے تو مجھے گُد گُدی) Titillation (ہونے لگتی ہے ‘‘۔
چودھری برادران کی ہلّا شیری !
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین اور چھوٹے چودھری پرویز الٰہی نے شیخ رشید احمد کے ’’ٹرین مارچ ‘‘ کا خیر مقدم کِیا اور ’’ دُودھو ں نہائو ، پُوتوں پھلو!‘‘ قسم کا آشیر واد بھی دے دِیا کہ ’’ ہم دونوں گجرات ریلوے سٹیشن پر ’’ ٹرین مارچ‘‘ کا استقبال کریں گے ‘‘۔ معزز قارئین! مَیں بہت خُوش ہُوا کہ ’’ جب چودھری صاحبان گجرات ریلوے سٹیشن پر شیخ رشید احمد سے گُھٹّ گھٹّ جپھّیاں ڈال رہے ہوں گے تو مَیں اُنکی نظر بچا کر اپنے پرانے (راجپوت) دوست مسلم لیگ (ق) پنجاب کے سیکرٹری جنرل چودھری ظہیر الدین سے بھی ایک ننھی مُنی جپھّی ڈال لوں گا۔لیکن یہ حسرت بھی پوری نہ ہو سکی۔ اب یہ ثابت ہو ا کہ ’’ میرے ہاتھ میں لاہور/راولپنڈی سے کراچی تک بذریعہ ٹرین سفر کرنے کی لکیر ہی نہیں ہے ‘‘ لیکن ، میری فرمائش پر ۔’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے ٹرین مارچ کے مناظر پر جو پنجابی ماہیے لِکھے ہیں،مَیں اُن کا کیا کروں؟۔ سوائے اِس کے کہ آپ کی خِدمت میں پیش کر دئیے جائیں۔
’’راولپنڈی سے روانگی‘‘
…O…
’’گڈّی چلّی اے ،کراچی نُوں!
تُوں مِلیں، مامے نُوں!
مَیں مِل ساں، چاچی نُوں!‘‘
…O…
’’گُجرات میں استقبال‘‘
…O…
’’گُجراتے، گڈّی آئی!
اِک اِک، مسافر نُوں!
دوہاں ،چودھریاں ،جپھّی پائی !‘‘
…O…
’’کراچی پہنچنے پر‘‘
…O…
’’اجّ! میری وی ، عِید ہووے !
گڈّی وچّوں ،لبھّدی پھِراں!
شالا! شیخ رشید ہووے!‘‘
…O…
شیخ صاحب کا جب بھی میاں نواز شریف کے ’’خاص بندے ‘‘ صدیق اُلفاروق سے ’’ اِٹ ّکھڑکا‘‘ ہُوا تومیرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے شیخ صاحب کی حمایت کی۔ 26 جنوری 2017ء کو میرے کالم میں ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے شیخ صاحب کی ہم عُمر کسی فیشن ایبل خاتون کی طرف سے یہ شعر کہے تھے کہ …؎
’’ تَینوں ٹی ، وی ، تے ویکھاں تے ،
نچّاں وانگ مَلنگاں!
مَیں نئیں ڈردی، صدِیق ؔفارق توں ،
جَد چھنکاواں وَنگاں!
خُود کُش حملہ آور ، نہ بن !
کہندَیاں تَینوں سَنگاں!
’’ لال حوؔیلی والڑیا ،
مَیں تیریاں خَیراں مَنگاں!‘‘
…O…
28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دِیا گیا تو یکم اگست کو قومی اسمبلی میں نئے وزیراعظم کا انتخاب تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کو 221۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمٹیرینز کے سیّد نوید قمر کو 47اور ’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور عوامی مسلم لیگ کے امیدوار شیخ رشید احمد کو33 ووٹ ملے اِس پر 3 اگست کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ شیخ رشید احمد کی شِکستِ فاتحانہ! ‘‘۔ دراصل اُستاد شاعر جگر مراد آبادیؔ نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ …
’’تجھے اے جگر مباؔرک! یہ شکست ِ فاتحانہ!‘‘
…O…
معزز قارئین! باوجود اِس کے کہ ’’ مَیں ، میرا دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ اور ہمارے لاکھوں ؔساتھی شیخ رشید احمد کے حمایتی ہیں لیکن ، اُنکے اِس بیان سے کہ ’’ 31 جولائی تک حکومتی و اپوزیشن جماعتوں میں جھاڑو پھر جائے گا ‘‘ مجھے تو اپنی جھاڑو کا فکر پڑ گیا ہے ؟‘‘
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024