شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ سے پیدا ہونیوالی پیچیدگیاں اور وزیراعظم کا کسی کو معافی نہ دینے کا اعلان
وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے تحت شوگر انکوائری کمیشن کی فرانزک رپورٹ پبلک کردی گئی ہے‘ اس آڈٹ رپورٹ میں چینی سکینڈل میں ملوث افراد کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ان سے ریکوری کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ریکوری کی رقم گنے کے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔ کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بھی بڑھی۔ کمیشن نے متعلقہ افراد کیخلاف کیسز نیب‘ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی جبکہ وفاقی کابینہ نے ریکوری کے پیسے عوام کو دینے اور وزیراعظم عمران خان نے دیگر شوگر ملز کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلہ میں عیدالفطر کے بعد سفارشات بھی طلب کرلی گئی ہیں جس کیلئے وزیراعظم کے خصوصی معاون شہزاد اکبر کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان میں سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا جنہوں نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ دس لاکھ روپے حاصل کئے۔ اسکے بعد سب سے زیادہ فائدہ آروائی گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں۔ انہوں نے 18 فیصد سبسڈی حاصل کی۔ رپورٹ کے مطابق اس گروپ کے مالکان میں مبینہ طور پر چودھری منیر اور مونس الٰہی کے نام بھی شامل ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ فائدہ المعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو ہوا جنہوں نے مجموعی سبسڈی کا 16 فیصد حاصل کیا۔ اسی طرح اومنی گروپ نے‘ جس کی آٹھ شوگر ملز ہیں گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کئے۔ اس گروپ کو جو زرداری خاندان کے زیرملکیت ہے‘ منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز‘ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاداکبر اور شہبازگل نے اس رپورٹ کے حوالے سے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ شوگر ملز نے 22‘ ارب ٹیکس دیکر 12‘ ارب ریفنڈ لیا۔ انکے بقول یہ رپورٹ شروعات ہے‘ دیگر معاملات کی بھی تحقیق ہوگی۔
گزشتہ برس چینی کی قلت کا سخت بحران پیدا ہوا جس کے نتیجہ میں چینی کے نرخوں میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوگیا تو وزیراعظم عمران خان نے اس معاملہ کی انکوائری کا حکم دے دیا۔ اس سلسلہ میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر واجد ضیاء کی سربراہی میں شوگر کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے تحقیقات مکمل کرکے عبوری رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی۔ اس رپورٹ میں بھی چینی سکینڈل میں وہی لوگ ملوث قرار دیئے گئے جن کے نام فرانزک رپورٹ میں منظرعام پر آئے ہیں۔ عبوری رپورٹ کے بعد وزیراعظم نے فرانزک رپورٹ کی بنیاد پر متعلقہ افراد کیخلاف کارروائی عمل میں لانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ رپورٹ کچھ التواء کا شکار ہوئی تو اپوزیشن کی جانب سے شور ڈالا گیا کہ رپورٹ میں نامزد حکومتی ارکان کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے‘ تاہم اب فرانزک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے تو اس میں بھی انہی لوگوں کو چینی بحران کا ذمہ دار گردانا گیا ہے جنہیں عبوری رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس پر شوگر کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء کو مبارکباد دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو‘ کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ انہوں نے حکومتی مشیروں اور معاونین کو بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ہدایت کی۔
عمران خان چونکہ کرپشن فری سوسائٹی کا ایجنڈا لے کر سیاست میں آئے اور اسی ایجنڈے کے تحت انہیں 2018ء کے انتخابات میں وفاق اور صوبوں میں حکمرانی کا مینڈیٹ حاصل ہوا اس لئے چینی بحران کے حوالے سے شوگر کمیشن کی فرانزک رپورٹ کو وزیراعظم کے اس ایجنڈے کی تکمیل کی جانب ایک قدم قرار دیا جا سکتا ہے تاہم مکمل شفافیت اور بے لاگ احتساب کرپشن فری سوسائٹی کا اہم عنصر ہے جس میں کسی قسم کی ناانصافی کا عنصر شامل ہوگا تو اس سے شفاف اور بے لاگ احتساب کا سارا مقصد فوت ہو جائیگا۔ انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں شوگر مافیا کے گٹھ جوڑ سے چینی کی برآمد کے نام پر حکومت سے سبسڈی حاصل کرنے‘ کسانوں سے کم نرخوں پر گنا خرید کر زیادہ قیمت خرید ظاہر کرنے اور کسانوں کو کچی رسیدیں دینے اور اسی طرح سٹے کے کاروبار سے فائدہ حاصل کرنے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے جن معاملات کی نشاندہی کی ہے‘ وہ یقیناً چشم کشا ہیں۔ تاہم یہ سارے معاملات مزید تحقیق کے متقاضی ہیں جس کیلئے متعلقہ فورموں پر ضرور رجوع کیا جانا چاہیے۔ اگرکسی پر بلاجواز اور سیاسی مقاصد کے تحت مدعا ڈالنے کی کوشش کی گئی تو اس سے بے لاگ احتساب پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ یقیناً اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو دھوکہ قرار دیتے ہوئے چینی سکینڈل کا اصل ذمہ دار وزیراعظم عمران خان کو ٹھہرایا ہے جبکہ حکمران مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنماء مونس الٰہی نے کمیشن کی سفارشات کی حمایت کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ کسی بھی شوگر مل انتظامیہ یا بورڈ میں شامل نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین بھی کمیشن کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں جن کے بقول وہ کسان کو پوری قیمت اور ٹیکسز ایمانداری سے ادا کرتے ہیں جبکہ حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی نہیں دی جبکہ چینی کی برآمد کی اجازت وفاق نے دی تھی۔ اس صورتحال میں تو چینی کا بحران خود وزیراعظم کے گلے پڑ سکتا ہے۔ وہ بے شک کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے پر گامزن ہیں تاہم انکوائری کی کسی سٹیج پر اسکی شفافیت مشکوک ہو گئی تو وزیراعظم کیلئے خاصی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ چینی سکینڈل کی مزید انکوائری میں میاں شہبازشریف‘ مونس الٰہی اور اسی طرح جہانگیر ترین‘ مخدوم خسرو بختیار کے بھائی اور زرداری فیملی کو بھی اپنا اپنا موقف پیش کرنے کی سہولت دی جائے اور پھر چینی سکینڈل کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ اگر شوگر کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی یکطرفہ فیصلہ کیا گیا جس میں کسی قسم کی سیاسی انتقامی کارروائی کا شائبہ نظر آیا تو بے لاگ احتساب کا تصور بے معنی ہو کر رہ جائیگا۔ انصاف کی عملداری میں بنیادی تقاضا ہر فریق کو صفائی کا مکمل موقع فراہم کرنے کا ہوتا ہے اس لئے شوگر سکینڈل میں متعلقہ فریقین کو صفائی کا مکمل موقع فراہم کرکے انکوائری کا پراسس آگے بڑھانا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024