ہفتہ ‘ 29 ؍ رمضان المبارک 1441 ھ‘ 23؍مئی 2020ء
عیدالفطر 24 مئی کو ہوگی‘ رویت ہلال کمیٹی 25 کو کرنا چاہتی ہے: فواد چودھری
ابھی تک پوری قوم کو رویت ہلال کے چکر سے آزاد ی نہیں مل سکی۔ پہلے بلوچستان اور خیبر پی کے کے کچھ سرحدی علاقوں میں افغانستان کی رویت ہلال کے اعلان پر عید منائی جاتی تھی۔ پھر مولانا پوپلزئی کی نجی رویت ہلال کمیٹی نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ناکوں چنے چبوانا شروع کر دیئے۔ یوں ملک بھر میں باقاعدہ طورپر 2 عیدیں منانے کی روایت مستحکم ہو گئی۔ اب وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری بھی جو جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے تحت رویت ہلال کو اہمیت دیتے ہیں‘ اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ یوں چاند ایک ہے اور اس کو چڑھانے والے تین ہو گئے ہیں۔ اب دیکھنا ہے جیت کس کی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں رویت ہلال کمیٹی کا کہیں بھی کوئی مسئلہ نہیں اور اس طرح اختلاف کا کہیں نظر نہیں آتا۔ سب مسلم ممالک میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد اور علماء کی مشاورت سے یہ کام بحسن خوبی چل رہا ہے‘ مگر ہمارے ہاں علماء اور سائنس و ٹیکنالوجی کا ملاپ ممکن نظر نہیں آتا۔ شاید اسی وجہ سے فواد چودھری رویت ہلال کمیٹی کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یہ جلتی پر تیل ڈالنے والا معاملہ ہے۔ جب تک اتفاق نہ ہو‘ اختلاف سے بچنا ضروری ہے۔ اس مسئلہ پر یوں سرپٹھول مناسب نہیں۔ مل جل کر اگر ایک چاند ہی چڑھایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
…٭٭……٭٭…
طالبان نے مخالفین کو عام معافی دیدی
اعلیٰ بہت اعلی۔ یہ ہے اصل اسلام کی روح۔ اسلام دنیا بھر کیلئے رحمت بن کر آیا ہے۔ ہمارے نبیؐ رحمتہ للعالمین ہیں۔ دشمنوں کو سزا دینا برحق مگر جہاں گڑ سے کام چلتا ہو‘ وہاں زہر دینا فضول ہوتا ہے۔ معافی عفو و درگزر مخالفین کے بھی دل موم کر دیتی ہے۔ عام لوگوں اور مخالفین پر اس کا اچھا اثر پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مخالفوں کی بات نہیں کرتے مگر عام لوگ اس رویہ سے دوست بن جاتے ہیں۔ اب اگر افغان حکومت بھی اور امریکہ افغان طالبان کی طرح وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور اپنے اپنے مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان کریں تو اس کے اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں آگ و خون کا سلسلہ بند ہو سکتا ہے۔ امن قائم ہو سکتا ہے۔ بہت ہو چکی‘ انتقام اور مخالفین کو کچلنے کی سیاست‘ بہت خون بہہ چکا افغان عوام کا۔ کرسی اور اقتدار کی ہوس اور لالچ پہلے ہی افغانستان کو کھنڈر بنا چکا ہے۔ اب وقت ہے پیار اور محبت کو فروغ دیا جائے۔ ایک دوسرے کو معاف کرکے گلے لگایا جائے اس طرح افغانستان میں امن کا دور شروع ہو سکتا ہے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ختم کیا جائے‘ بندکرایا جائے۔
…٭٭……٭٭…
اثاثہ جات سکروٹنی‘ بلاول کی 3 جون کو الیکشن کمشن میں طلبی
اب الیکشن کمشن نے بالآخر پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو کاغذات نامزدگی میں چھپائے گئے اثاثوں کے حوالے سے طلب کر ہی لیا۔ اپوزیشن جماعتیں اور پیپلزپارٹی والے اسے سیاسی انتقام گردانتے ہوئے حکومت کے خلاف پھٹ پڑیں گے۔ یوں اس موسم گرما میں سیاسی میدان کا بھی درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوگا۔ خدا خدا کرکے کرونا کی وجہ سے سیاسی خانہ جنگی کا ماحول ختم ہوا تھا اور سب جماعتیں قرنطینہ میں آرام کرتی نظر آرہی تھیں۔ اب اچانک ایک بار پھر شوگر رپورٹ اور بلاول کی الیکشن کمشن میں طلبی نے توپوں کے منہ کھول دیئے ہیں جس کی وجہ سے عارضی جنگ بندی بھی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔
اگر بلاول جی نے الیکشن کمشن میں صحیح گوشوارے جمع کرائے اور اثاثہ جات ظاہر کئے ہیں تو پھر جلنے والوں کا منہ کالا۔ بلاول کا بال بھی بانکا نہیں ہوگا۔ اگر معاملہ الٹ ہے تو پھر الیکشن کمشن بلاول کے ساتھ ان دیگر سینکڑوں ممبران قومی اسمبلی کی بھی گوشمالی کرے جنہوں نے غلط گوشوارے جمع کرائے اور اثاثے ظاہر نہیں کئے۔ اب یہ ؎
اپنوں پہ ’’کرم‘‘ غیروں پہ ’’ستم‘‘
اے جان وفا یہ ظلم نہ کر
والا معاملہ نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی تو ہو‘ جو ملک میں قانون اور انصاف کو رواج دے۔ سب کی سکروٹنی کی جائے اور عوام کے سامنے ان کے اصل اثاثے اور آمدنی ظاہر کی جائے۔ اپنا ہو یا غیر کسی سے رعایت نہ برتی جائے تاہ انصاف کا بول بالا ہو۔
…٭٭……٭٭…
لاک ڈائون ختم ہونے پر مالک اپنے گدھے سے مل کر رو پڑا
یہ ہے یورپین افراد کا جانوروں سے محبت کا حال۔ جہاں انسان انسان کی محبت کو ترستا ہے اور اس شخص کی اپنے گدھے سے محبت کا عالم ہے کہ لاک ڈائون کے بعد جب یہ اپنے محبوب گدھے سے ملا تو بے اختیار رو پڑا۔ ہمارے ہاں بھی لاک ڈائون میں نرمی کے بعد ایسے بے شمار مناظر دیکھنے میں آئے ہونگے مگر چونکہ ہمارے ہاں محبوب گدھوں کی کمی نہیں یا پھر ان کی ویڈیو نہیں بنی اس لئے زیادہ شہرہ نہیں ہو سکا۔ ویسے بھی کہتے ہیں؎
محبت کیلئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
اب اگر خاص دل کی جگہ خاص گدھے پڑھا جائے تو مزہ دوبالا ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ گدھے انسانی شکل میں ہوتے ہیں۔ باقی رہی بات لاک ڈائون میں نرمی کی تو اس کے بعد ساری قوم جس طرح مارکیٹوں اور شاپنگ سنٹروں میں ’’خرمستیاں‘‘ یا خریداری کرتی پھر رہی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان گدھوں کی یہ حرکتیں ایک بار پھر کسی سخت اور کڑے لاک ڈائون کا باعث بنیں گی۔ نہ اپنی پروا ہے کسی کو نہ دوسرے کی۔ سچ کہیں تو ہزاروں لوگوں کی آنکھوں میں تو کھلے بازار اور مارکیٹیں دیکھ کر خوشی کے آنسو نظر آرہے ہیں۔ کسی کسی کو گدھے کو دیکھ کر‘ کسی کی بازار دیکھ کر آنکھیں چھلک رہی ہیں۔