سینٹرل جیل کا بلا خانہ اب بھی موجود ہے مگر اب سب کچھ وہ نہیں ہے جو 70ء یا80ء کی دہائی میں تھا۔پہلے یہ ڈسٹرکٹ جیل تھی،کچی تعمیر ہونے کی بنا ء پر اس کا کلچر بھی مختلف تھا۔جس میں"پوچالگانا"اور"مونج کوٹنا" وغیرہ نمایاں تھے۔اب نہ وہ نمبردارنہ دھوبی خانہ اور نہ لوہار خانہ نہ مونج کوٹنااور نہ پوچالگانا منظر ہی بدل چکا ہے۔ وہ بیرک بھی نہ رہی جس میں مولانا خطیب الرحمان جامی۔گل روڈ کے سید منیر رضوی، مولانا عبدالحکیم اور جماعت اسلامی کے امان اللہ بٹ مقید تھے۔ 1974ء سے 1985ء تک کے گیارہ سالوں میں بار ہا کبھی حوالاتی ،کبھی نظر بند اور کبھی قیدی بن کرجانا ہوا۔بھٹو دور تک اسے تحریک استقلال کو گوجرانوالہ میں زندہ رکھنے کیلئے 74.75.76اور77کے مسلسل چارسالوں تک وقفے وقفے سے کئی کئی ماہ آباد رکھا ۔1974ء اس لئے اہم ہے کہ میں شہر سے ختم نبوت کا پہلا قیدی تھا۔مجھے یاد ہے کہ نوشہرہ روڈ پر واقع مسجد ملک لال خاں میں ختم نبوت کا ایک چھوٹا ساجلسہ منعقد ہوا،کیونکہ ابھی تحریک کا آغازتھا ۔ویسے بھی میرا تجربہ ہے کہ تحریکیں ہلکی آنچ پر تیار ہوتی ہیں اور جب ابلنا شروع ہوجائیں تو اس مجمع سرفروشاں کے سامنے پہاڑ بھی لرزنے لگتے ہیں۔اور جوسیلاب کی طرح آکر جھاگ کی طر ح بیٹھ جاتی ہیں وہ تحریکیں نہیں سازشیں ہوتی ہیں۔ہاں تو جس جلسے کا میں ذکر کررہا تھااس سے پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری پرویز الطاف ،نذیر غازی (جسٹس ریٹائرڈ)طالب علم راہنماغلام عباس اور خود میں نے بھی خطاب کیا۔بقیہ تینوں مہمان تو جلسے کے بعد چلے گئے جبکہ میں اگلے روز چوک نیائیں میں پولیس کے قابو آکر گرفتار ہوا اور اس سے اگلے روز ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ پہنچا دیاگیا۔اس وقت چوہدری یار محمد دریانہ سپرنٹنڈنٹ اورچوہدری مختار ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے دفتر بلاکر سمجھایا کہ یہ جیل ہے ، اسکے اپنے ضابطے ہیں ہم آپ کو بلا وجہ تنگ نہیں کیلئے ہیں ۔اب آپ اپنی بیرک میں جائیں آپ کا ضروری سامان ابھی پہنچا دیتے ہیں ۔انکے منہ سے ختم نبوت کیلئے "اچھے مقصد"کے الفاظ سن کردل میں ان کا احترام پیدا ہوگیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جیل حکام نے واقعی پورا وقت احترام کیا اور کرایا۔مجھے جس بیرک میں بھیجا گیا قدرے چھوٹی تھی جسے صرف ختم نبوت کے قیدیوں کیلئے مخصوص کردیا گیا تھا۔اخبارات کا جیل میں داخلہ بند تھا۔کورٹ موقع (جیل کی بیرونی دیوار) سے باہر کی دنیا کی کوئی خبر کسی چرند پرند کے ذریعے بھی نہیں ملتی تھی،رہے جیل والے ،وہ احترام تو دیتے تھے مگر اخبار نہیں ۔میری چھوٹی ہمشیرہ جو اسوقت کنیڈا میں مقیم ہے اس نے اس مسئلے کا حل یہ ڈھونڈاکہ گھر سے جوکھانا جیل بھیجتی روٹیاں اور سلاد وغیرہ تازہ اخبار میں لپیٹ دیتی ،میں بھی ایک کونے میں چھپ کر"نوائے وقت" پڑھ کرفارغ ہوتا تواسے جلا کر چائے بنالیتا۔گویا ضرورت ہر حال میں اپنا راستہ نکال لیتی ہے۔وہ سات ستمبر1974ء کی مبارک ساعت تھی جب آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیدیا گیااوراہل ایمان کو بھی قرار آگیا۔اس روز کے بعد قادیانی نوجوانوں ،اور انکے مبلغین نے امریکہ ، برطانیہ یورپی ممالک اور کنیڈا میں جاکر سیاسی پناہ لینا شروع کردی جو چند ہفتوں کے اندر ہی مل جاتی بلکہ پاکستان میں مقیم انکے بیوی بچوں کو بھی یہ سہولت گھر بیٹھے حاصل ہوجاتی۔ قادیانیوں نے ان ممالک میں خوب دولت کمائی اور اپنی جماعت کو مالی طور پر مستحکم کیا۔اب قادیانیوں نے اپنی گمراہ کن تبلیغ کیلئے براعظم افریقہ کارخ کیا۔کیونکہ سیاہ فام افریقیوں کو اسلام کا پیغام بڑااپیل کرتا ہے ۔ ماضی بعید کے حوالے سے اسکی وجہ ہجرت حبشہ کا واقعہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام میں اعلی مقام اور نبی آخرالزماں کی قربت ہے ۔ماضی قریب میں امریکی سیاہ فاموں میں سے محمد علی باکسر ،امام وارث محمد،لوئیس فرح خاں۔ عبدالعزیز (ہیوی ویٹ باکسر مائیک ٹائی سن ) وغیرہ کا مسلمان ہونا اس امرکی دلیل ہے کہ انکے آبائواجداد بھی مسلمان تھے امریکہ میں ایک ناول (THE ROOTS)دی روٹس نے اشاعت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔اس ناول پر ہالی وڈ نے اسی نام" دی روٹس" نامی فلم بھی بنائی ۔یہ فلم بھی انتہائی کامیاب ہوئی ۔کروڑوں ڈالر کمائے اور کئی آسکرایوارڈ حاصل کئے ۔اس فلم کے ایک منظر میں اپنے وطن کی تلاش میں سرگرداں فلم کا مرکزی کردار "کنتا کنتے"اپنے گائوں پہنچتا ہے تو پردہ سکرین پر ایک مسجد سے اذان کی آواز بلند ہورہی ہوتی ہے اور یوں اس پر عقدہ کھلتا ہے کہ اسکے اجداد مسلمان تھے ۔ شائداسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے قادیانیوں نے افریقہ کے لوگوں کو اسلام کے نام پر قادیانی بنانا شروع کیا جو اب تک یہ گمراہی پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسکے جواب میں کوئی ایسی مضبوط جماعت یاتنظیم نہیں جوان کا مقابلہ کرسکے۔کیونکہ اس کام کیلئے بہت سا روپیہ ،صحت مندی،تعلیم اور خاص طور پر انگریزی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے۔پاکستان میں موجود "ختم نبوت"کیلئے کام کرنے والی جماعتوں میں ان چیزوں میں سے کئی ایک کا فقدان ہے۔پیسہ ہے تو تعلیم نہیں صحت ہے تو انگریزی زبان پر عبورنہیں ۔تاہم رائے ونڈکی تبلیغی جماعت میں یہ چاروں عناصر موجود ہیں ،مگر افریقہ میں جاکر صرف قادیانیت کا مقابلہ کرکے سیاہ فاموں کو محمدعربی کا اسلام سمجھانا شائد ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔اسکی بجائے میں اور آپ ان کا موضوع ہیں۔وہ پاکستان میں ہی بستر اٹھائے نظر آتے ہیں جو اچھی بات ہے ،مگر اے کاش انہیں کوئی سمجھائے کہ ان کا تبلیغی میدان پاکستان کے علاوہ افریقہ کے تپتے ہوئے میدان ، سیاہ فاموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور کسی بڑے افریقی ملک میںختم نبوت کا مضبوط مرکز قائم کرنا ہے ،جہاں نبی آخر الزماں کا پیغام پہنچانے کیلئے وہ اپنی زندگیاں وقف کردیں ،یہاں تک لکھا تھا کہ اچانک ہمدم دیرینہ سیالکوٹ بار کے سابق صدر،سابق MPAاور تحریک استقلال کے پرانے ساتھی ادریس باجوہ ایڈووکیٹ کی عارضہ قلب کے ہاتھوں وفات کی اطلاع ملی ۔اک آہ سی نکل گئی کہ…ع
کئی چاند تھے سرآسماںکہ چمک چمک کے پلٹ گئے
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024