وہ جب ایک گھرسے دوسرے گھر کی دہلیز پار کر گئی تو جانے کب کیسے بچپن کا گلک بھی ساتھ ہی لے آئی ۔ اماں نے لاکھ سمجھایا کہ گلک ساتھ لے کر نہیں جاتے ۔ تمہیں کیا معلوم وہاں روزانہ کتنے سکے جمع کر پائو گی ۔ تم اداس رہو گی ۔ تمہاری آنکھیںگلک اور دل بابا کے گھر میں لگا رہے گا ۔شائد ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔۔ہر مہینے گلک ٹوٹ جاتا۔۔۔وقت سے پہلے ہی ٹوٹ جاتا اور اندر کچھ نہ پا کروہ اکیلی بیٹھی گھنٹوں روتی رہتی۔
ایک دن اماں نے کہا اب اپنا گلک تو تمہیں وہیں کی مٹی سے بنانا پڑے گا۔ ہر آنگن کی مٹی جدا ہوتی ہے ۔ یہاں کی مٹی وہاں جا کر بیجو گی تو کبھی پیڑ نہیں بن پائے گا۔وہاں کا یقین بھی الگ ہو گا اور گمان بھی الگ ۔ہو سکتا ہے کہ بابا کی طرح وہ روزانہ تمہارے لئے جلیبیاں نہ لا سکے ۔ شائد دودھ کچھ پتلا اور چائے کچھ کالی بنے۔ کیا معلوم جب وہاں ہوا چلے تو سیدھے تمہاری کھڑکی سے تمہارے منہ کو نہ چھو سکے جیسے یہاں چھو کر گزرتی ہے ۔شائد وہ تمہاری سالگرہ پر ایک چھوٹے سے کیک پر ایک ہی موم بتی جلا سکے تو اس وقت تمہارے دل میں اپنے بابا کی تمہاری سالگرہ پر کی گئی آتشبازی کا خیال نہیں آنا چاہیے بلکہ ہمیشہ اس آتشبازی کے پیچھے مسکراتی ان کی آنکھیںیاد آنا چاہیئں جو تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی ہیں اور خوشی شائد اسی میں ہے کہ اب تم اس نئے آنگن کی مٹی لے کر ایک نیا گلک بنانا شروع کر دو۔ اس کا بابا کے گلک سے موازنہ نہ کرنا۔ پھر اپنے دل کی الماری میں دونوں گلک ایک توازن سے رکھنا سیکھ لو۔۔وہ گلک اپنے آپ یکجا ہو جائیںگے اور پھر چھن سے ٹوٹنے کی آواز کبھی نہیں آئے گی ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024