وزیراعلی پنجاب نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مسائل کا حل عوام کی دہلیز پر ہوگا اور اس کے لئے گڈ گورننس اور عوام کے لئے اصلاحاتی پروگرام مرتب کرنا لازمی عنصر ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لئے اہم عنصر وہ حکمت عملی ہے جس کے لیے مدینہ جیسی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسی معاشی پالیسی کو متعارف کروایا جائے کہ جس میں غریب آدمی غریب سے غریب تر نہ ہوماہرین معیشت ترقی پذیر ممالک کی معیشت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یا تو ترقی پذیر ممالک اصلاحات کی فعالیت پر عمل درآمد نہیں کرواتے یا پھر وہ مجبوری کے ہاتھوں بادل نخواستہ اصلاحات کا نفاذ کرتے ہیں اگر ریاست اور عوام میں عدم اعتماد ہے تو ان اصلاحات کا مقصد ختم ہو جاتا ہے اور مسائل کا عوام کی دہلیز پر حل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ اب چاہے وہ کورونا کا مسئلہ ہو یا عوامی اصلاحات کا ایجنڈا شومئی قسمت ہمارے ہاں ان دو باتوں کا اطلاق ہوتا رہا اور عوام کی مجبوری کو نہ سمجھا گیاجس کے نتیجے میں مایوسیوں اور محرومیوں کا آغاز ہوا اور انہی محرومیوں کے ازالے کے لئے عمران خان میدان عمل میں آئے۔ انہوں نے بارہا اپنے خطاب میںغریب عوام کے لئے آواز اٹھائی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی نظام کی مضبوطی ے لئے جس فعالیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے گڈ گورننس لازمی عنصر ہے ہم اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ اگر عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد موجود ہے اور دونوں کے درمیان احساس کا رشتہ موجود ہے تو مسائل کا حل دہلیز پر ممکن ہے وگرنہ کاغذی نقشے میز پر بکھرے تو اچھے لگتے ہیں کسی عملی سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتے جمہوریت اور معیشت لازم وملزوم ہیں کمزور معیشت جمہوریت پر اثرانداز ہوتی ہے اور جمہوریت بھی زیادہ عرصے معیشت کو نقصان پہنچانے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے فوکویامہ نے اس مسئلے کا حل یہ دھونڈا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ریاست اقتصادی مساوات کی عدم موجودگی کے باوجود قانونی مساوات کو یقینی بنائے تاکہ لوگوں کا بحیثیت انسان احترام کیا جاسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ترقیاتی عمل اور نظریات کے متعلق اپنے طرز فکر کو تبدیل کریں عوام اور ریاست کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا کو پیدا کرکے گڈ گورننس اور امپرومنٹ کے تصورات کا صحیح معنوں میں اطلاق ممکن بنایا جا کے اور اس کے لیے ہمیں ریاست مدینہ اور اس کے سنہری اصولوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔ حصرت عمرؓ خلافت کی بے پناہ مصروفیت کے باوجود ضرورتمندوں کے لئے وقت نکالتے تھے۔ راتوں کو بھیس بدل بدل کر گلیوں میں گھومتے۔ خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود لوگوں کو خبر نہ ہوتی تھی کہ ان کا محسن اور مربی کون ہے۔ حضرت طلحہ کا بیان ہے کہ ایک روز علی الصبح امیر المومینین کو ایک جھونپڑی میں جاتے دیکھا تو یہ خیال پیدا ہوا کہ انکا یہاں کیا کام دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں ایک نابینا عورت رہتی ہے اور وہ ہرروز اس کی خبر گیری کیلئے جاتے ہیں۔ آپ کا قول ہے کہ میں اگر عیش و نشاط کی زندگی بسر کروں اور لوگ مصیبت اور افلاس میں رہیں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ در حقیقت خبرگیری اور احساس دو ہی محرکات ہیں جس کے تحت گڈ گورننس کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور مسائل کا حل گھر کی دہلیز پر ہو سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024