کراچی میں ہونے والے حادثے کا ذمہ دار کون ہے، کس کہ غفلت سے درجنوں خاندان تباہ ہوئے ہیں۔ کسی خاندان کا ایک فرد جانے کا مطلب ایک انتقال نہیں ہوتا وہ پورا گھرانہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی میاں بیوی دنیا سے چلے گئے ہیں تو ان کے بچے دوبارہ کبھی والدین کو نہیں دیکھ سکیں گے، کسی ماں کا اکلوتا بیٹا ہے واحد سہارا کسی حادثے میں دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس ماں کے دکھ کا مداوا کون کر سکتا ہے۔ کوئی تجربہ کار استاد حادثے میں دنیا سے چلا جائے تو یہ کسی بڑے قومی نقصان سے کسی صورت کم نہیں ہے۔ کوئی عالم دین ایسے حادثے میں دنیا سے چلا جائے تو دہائیوں کا علم اس کے ساتھ دفن ہو جاتا ہے اس کا بھی کوئی ازالہ نہیں ہے۔ موت برحق ہے اس سے کوئی انکار نہیں لیکن زندگی کی حفاظت بھی فرض ہے۔ خود کشی کی اجازت نہیں اور اچھے بھلے انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنا بھی کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے بہترین دماغ، دہائیوں کی محنت و ریاضت ایک حادثے کی نذر ہو جائے تو دائمی دکھ لگ جاتا ہے۔ کراچی میں طیارہ حادثہ بھی دائمی دکھ ہے۔
ہم ایسے حادثات کے بارے کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے نہ ہی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات ہوئیں نہ کبھی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ ٹرین کا حادثہ ہو یا جہاز گر جائے ہم نے ہر جگہ مصلحت سے ہی کام لیا ہے۔ جولائی دوہزار دس میں نجی ائیر لائن ائیر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی اس حادثے میں جہاز میں سوار ایک سو باون افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ پاکستان میں اب تک اسی فضائی حادثات میں ایک ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ یہ تاریخ انتہائی تکلیف دہ ہے ان حادثات میں دنیا سے جانے والوں کے نام پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کتنے بڑے بڑے نام حادثات کی نذر کیے ہیں۔ دو ہزار چھ میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کا ملتان سے اڑنے والا ایک فوکر طیارہ گر کر تباہ ہوا اس طیارے میں سوار بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ہائیکورٹ کے دو جج اور افواج پاکستان کے دو بریگیڈیئر کی زندگی کا یہ آخری سفر ثابت ہوا۔ ان افراد کی زندگیوں سے کتنے برسوں کی محنت ایک حادثے میں ضائع ہو گئی۔ درحقیقت ہم نے کبھی انسانی زندگی کو اہمیت ہی نہیں دی۔ جب انسان کی ہی اہمیت نہیں رہی تو معیاری اور معاشرے کے بہترین اور فائدہ مند انسانوں پر کون توجہ دے گا۔ ان حادثات کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ ذرا گذشتہ ڈیڑھ برس میں ہونے والے ٹرین حادثات پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ انسانی زندگی کتنی سستی ہو کر رہ گئی ہے اور وزیر موصوف کو سیاسی پیشگوئیوں سے فرصت نہیں ملتی۔ وہ اپنی وزارت کے علاوہ سارا ملک چلا رہے ہوتے ہیں انہیں حکومت میں شامل سیاست دانوں اور حزب اختلاف میں اپنے مخالفین کی ہر حرکت کی خبر ہوتی ہے اگر نہیں پتہ ہوتا تو صرف اپنی وزارت کے معاملات کا کچھ علم نہیں ہوتا۔
کراچی طیارہ حادثہ پر تحقیقاتی کمیٹی بن چکی ہے۔ امید ہے کہ کمیٹی مقررہ وقت میں مکمل ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہوئے رپورٹ جمع کروائے گی۔ اگر کسی کی غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے حادثہ پیش آیا ہے تو اسے بھی نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کیا ہے۔ آئی پی پیز کی رپورٹ بھی منظر عام پر آنی چاہیے۔ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے ساتھ ساتھ ریکوری کی جانی چاہیے۔ اس حادثے کی رپورٹ کو بھی ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ذمہ داروں کا تعین سب سے اہم ہے۔ ہم کسی جانے والے کو تو واپس نہیں لا سکتے لیکن آئندہ کے لیے قیمتی جانیں بچانے کے لیے کام تو ضرور کر سکتے ہیں۔ عمران خان سے قوم یہی توقع کرتی ہے کہ وہ ہر شعبے میں موجود نالائق اور غیر مستحق افراد کو نکال باہر کریں گے۔ انسانی جانوں سے زیادہ کچھ قیمتی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ کیا ہم اس حکم اور بنیادی اصول کو اپنی زندگیوں اور انتظامی شعبوں پر لاگو کرتے ہیں۔ کاش کہ ہم قرآن کریم سے رہنمائی لیں، قرآن مجید کی آیات پر عمل کریں تو مسائل کم اور زندگی میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ہر حادثہ ہمیں ایک سبق دے کر جاتا ہے لیکن ہم ایسے لاپروا ہیں کہ کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ غلطیاں دہرانے میں شاید ہی دنیا میں کوئی ہم سے بہتر ہو۔ ہمارے سامنے کرونا وائرس نے دنیا میں تباہی پھیلائی، بڑی تعداد میں انسان کرونا کا شکار ہوئے اور دنیا سے چلے گئے اور اسی کرونا کے پاکستان میں حملوں کے بعد جو حالت حکومت اور عوام نے کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت نے عوام کو جان لیوا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور عوام کی بے احتیاطی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کہتے ہیں کہ مارکیٹوں میں عوام کا ہجوم ہے اس صورتحال میں نتائج جو بھی ہوں ذمہ دار عوام خود ہوں گے۔ مارکیٹیں کھولنے کا فیصلہ حکومت نے کیا تھا عوام نے نہیں، عوام کے مسائل حل کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی کیا وہ نبھائی گئی، لاک ڈاؤن کے دوران تاجر تنظیموں کو اعتماد میں لینے کی ذمہ داری حکومت نے ادا کرنا تھی کسی اور نے نہیں، اگر بازار کھلوائے ہیں تو ایس او پیز پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری تھی جب حکومت نے اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا تو عوام پر ذمہ داری ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ ایسے رویوں کی وجہ سے ہی حادثات اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ آج تک نہیں رک پایا۔ قوم کی نظریں وزیراعظم عمران خان پر ہیں۔ قوم کو امید بھی ہے اور وزیراعظم کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ روایتی سیاست کا خاتمہ کرتے ہوئے نئے اور ایک پاکستان کی تعمیر کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024