کورونا کی غیر متنازعہ تشخیص میں نیکوپ ( NECOP ) کی ایک اہم پیش رفت …

روزِ اول سے جو بات ہم اپنے کالموں میں گاہے بگاہے لکھتے رہے ہیں اس کی تصدیق بالآخر عدالت ِ عظمیٰ نے کر دی۔ گزشتہ دو مہینوں کے مسلسل تذبذب اور الجھائو کے بعد اب اکثریتی باشعور طبقہ جان گیا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیںبلکہ بہت کچھ کالا ہے۔خصوصاََ کرونا ٹیسٹوں اور اس سے متعلق اموات میں بہت شبہات پائے گئے ہیں۔ اِس لالچ کا کیا کیجئے کہ جب سے عالمی ادارہ ء صحت نے ہر ایک ’’ کرونا موت ‘‘ پر اسپتالوں کو مخصوص رقم دینا شروع کی تَب سے آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے۔ پاکستانیوں کی تو کیا ہی بات ہے !! میرے ایک دوست نے مُملِکتِ کینیڈا سے خبر دی ہے کہ وہاں بھی اسپتالوں میں ہر ایک موت کو کرونا کے کھاتے میں ڈال کر مال بنایا جا رہا ہے۔تو ہمارے پاکستانی بھائی ہاتھ آئی دولت کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں !! طُرفہ تماشا دیکھیئے کہ ہمارے ملک میں مارچ کے آخرمیں لاک ڈائون وغیرہ کے اقدام کیئے گئے اور حکومتی سطح پر کہا گیا کہ ماہِ اپریل میں یہ وبا شِدّت اِختیار کرے گی۔ماہِ اپریل آدھا گزرا تو اِرشاد ہوا کہ مئی میں شِدّت بڑھنے کا خطرہ ہے اور اب … مئی میں کہا جا رہا ہے کہ جون میں وبا پھیلنے کا خطرہ ہے کیوں کہ لاک ڈائون ختم ہو رہا ہے۔دو مہینے سے جِس خطرے کی مُسلسل نشاندہی کی جا رہی ہے وہ اُتنی شِدّت میں ابھی تک نظر نہیں آ یا۔یہ وہ منفی سوچ اور اقدام ہے جو حکومتی سطح سے پھیلایا جا رہا ہے۔بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی حِکمَتِ عملی صرف ’’ ڈرانے ‘‘ تک محدود ہے۔روزانہ کی بنیاد پر اہم ترین خبر یہی ہوتی ہے کہ اِتنے مر گئے اور اِتنے متاثر ہو گئے ……پچھلے دنوں اِسلام آباد میں کورونا سے متعلق ایک سائنسی ایکسپو ہوا تھاجس میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں مختلف کمپنیوں کے اسٹال موجود تھے جو کورونا سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنی مصنوعات پیش کر رہی تھیں۔وہیں پر ایک اسٹال تھا جو اسلام آباد میں واقع ایک سرکاری ادارے نیکوپ ( NECOP) نے لگایا تھا۔اِس ادارے نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک ایسا سسٹم متعارف کرایا ہے ۔جس میں کمپیوٹر کے ذریعے کورونا کی ابتدائی تشخیص کی جا سکتی ہے۔یہ خود کار نِظام پھیپھڑے کے ایکس رے سے کورونا کے مریض کی تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مصنوعی ذہانت کا یہ سافٹ وئیر نمونیا اور کورونا کے متاثرین کو با آسانی الگ الگ شناخت کر سکتا ہے کہ دونوں ہی کا شدید حملہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے ۔ اِس سسٹم کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لئے ادارے نے ملکی و غیرملکی ذرائع سے بڑی تعداد میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کا ڈیٹا لے کر اس سافٹ وئیر میں منتقل کیا۔میں نے اسٹال پر موجود اُن کے نمائندے سے دریافت کیا کہ اب تک وہ کتنے ٹیسٹ کر چکے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں اس کو آزمائشی بنیادوں پر استعمال کیا گیا اور اس دوران ہزاروں کی تعداد میں ٹیسٹ کیئے گئے۔اس کے بعد ان میں سے زیادہ تر افراد کے پی سی آر ( PCR ) ٹیسٹ کیئے گئے اور ان دونوں ٹیسٹ میں مطابقت پائی گئی جس کے بعد یہ ثابت ہو ا کہ یہ نظام کورونا میں مبتلا تمام مریضوں کی شناخت کر لیتا ہے۔ اب اس کو پاکستان انجینئرنگ کونسل نے بھی منظور کر لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے لئے درکار ایکسرے مشینیں پہلے ہی ملک کے ہر کونے میں دستیاب ہیں اور ایکسرے کی تصویر کی مدد سے یہ نظام چند سیکنڈ میں آپ کو بتا سکتا ہے کہ مریض میں کورونا وائرس کی موجودگی ہے یا نہیں۔ دوسرے اس ٹیسٹ کے لئے آنے والی لاگت ایک عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ کیوں کہ اس کے لئے محض ایکس رے کی تصویر درکار ہوتی ہے اور باقی کام سافٹ ویئر انجام دیتا ہے۔ جبکہ پی سی آر ٹیسٹ کا معاوضہ سات سے آٹھ ہزار روپے تک ہوتا ہے اور اس کے لئے کم از کم چوبیس گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔مزید براں پی سی آر کے نتیجے پر مکمل اعتماد حاصل کرنے کے لئے اس کو دہرانا بھی پڑتا ہے۔ابھی کل ہی یہ بات میرے علم میں آئی ہے کہ حال ہی میں ہمارے پڑوسی ملک میں بھی اسی کے مساوی سسٹم کو برطانیہ کی ایک کمپنی کے اشتراک سے کئی اسپتالوں میں نصب کر دیا گیا ہے جبکہ نیکوپ ( NECOP) کا بنایا گیا یہ سسٹم صرف اور صرف پاکستانی انجینئروں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے، خالصتاََ پاکستان میں بنایا جو اِن کی ذہانت اور صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کورونا کے لئے ہونے والے ٹیسٹ اور میڈیا سے یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ کورونا کے بہت سے ایسے مریض بھی ہیں جن میں کورونا سے متعلق کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں …میں نے پھر پوچھا کیا کھانسی کے ساتھ بُخار ضروری ہے؟ کہنے لگے ضروری نہیں بس کھانسی خُشک ہوتی ہے۔میں دل میں بہت ہنسا اور شُکر ادا کیاکہ میرے محلے والے بہت اچھے ہیں ، انہوں نے میری شکایت نہیں کی۔اپریل کے وسط میں ، مجھے کھانسی شروع ہوئی تھی۔ایک دو دن گھریلو نُسخے آزمائے مگر مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی۔ تیسرے دن میں اپنے ڈاکٹر صاحب ( ہومیو پیتھِک ) کے پاس گیا۔ کھانسی اتنی شدید تھی کہ بمشکل جُملہ مُکمل کر پاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے دوا دی ۔اللہ کے فضل سے تین چار دنوں میں کافی افاقہ ہو گیا مگر کھانسی ختم نہ ہوئی۔ پھر میری بیوی محلے کے پنساری سے حِکمَت کی دوا ’’ لعوقِ سپستاں ‘‘ لے آئی۔اللہ نے کرم کیا اور دو ہی دن میں کھانسی بالکل رفع دفع ہو گئی۔ اتنے میں رمضان بھی شروع ہو گیا۔ایک بوتل لعوق کی ختم کی اور اب اللہ کا فضل ہے۔اِس دوران میں باقاعدگی سے صبح شہد کا قہوہ پیتا رہا۔اب رمضان میں شہد کی پابندی نہیں رہی لیکن 100 دوائوں کی ایک دوا شہد … کرونا اور تمام وائرس بیماریوں کے لئے کوئی دوا نہیں ہے۔ اِسی لئے تو پوری دنیا کرونا کے لئے دوا کی نہیں بلکہ ’’ ویکسین ‘‘ کی متلاشی ہے۔ میری ہر خاص و عام سے درخواست ہے کہ شہد کو اپنی معمول کی خوراک کا لازمی جزو بنائیں۔ سردیوں میں گرم پانی اور گرمیوں میں تازہ پانی میں حل کر کے صبح نہار منہ پیئیں ۔ بہترین ویکسین !! ہر ایک بیماری کی … یہ یقین کر لیں کہ ’’ شفاء ‘‘ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی دوا ، کوئی ویکسین اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا ’’ اِذن ‘‘ نہ ہو۔تمام جاندار اللہ کی مخلوق ہیں۔وہ ہمیشہ سے تھے اور تا قیامت رہیں گے۔بَس ’’ سوتے ‘‘ ’’ جاگتے ‘‘ رہتے ہیں۔کرونا بھی ہمیشہ سے تھا اور رہے گا۔ پہلے سویا ہوا تھا۔ اب جاگ گیا ہے، خود نہیں بلکہ اللہ کے اِذن سے جاگا ہے۔ اِس لئے شہد کا استعمال کیجئے۔ احتیاط کریں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں … نافرمانی سے بچیں۔تو اللہ کے اِذن کے بغیر کرونا کچھ نہیں کرے گا۔ہماری اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ زندگی کو معمول پر لے آئیں۔ محدود اوقات میں کاروبارِ زندگی سے رَش بڑھتا ہے اور رش ہی تو خطرناک ہے ۔ تمام نجی اور سرکاری اداروں اور بازاروں کے اوقاتِ کار بڑھنے سے رش بھی ختم ہو جائے گا۔کیوں کہ اب ہم نے … نہ تو ڈرنا ہے اور نہ لڑنا ہے بلکہ کرونا کے ساتھ گزارہ کرنا ہے !!