حکومت پنجاب کا محکمہ تعلیم
مکرمی !پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، آبادی کے لحاظ سے پچاس فیصد سے زیادہ حصہ پاکستان میں پنجاب کا ہے اور پھرصوبے میں شہری آبادی سے دیہی آبادی زیادہ ہے۔ پنجاب بھر میں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں جو کل آبادی کا 70 فیصد کے لگ بھگ ہیاور اسی وجہ سے تعلیم کے حصول پر توجہ نہیں دی جاتی تا کہ دیہی مزدور میسر رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ والدین کا تعلیم یافتہ نہ ہونا ہے لیکن یہ تو حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات مثلاًتعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی وغیرہ فراہم کرنے کے اسباب کرے، جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے اوراس کے ساتھ ساتھ وہ قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ گیارہ کروڑ کی آبادی کی شرحِ نمو کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو صرف باون ہزار چارسو سترتعلیمی ادارے صوبے بھر(جس میں 36 اضلاع ہیں) کی آبادی کیلئے انتہائی ناکافی ہیں۔ 2019 کے اعداد و شمار کو مد نظررکھا جائے توکل 12،863،566، طالبعلم ان سکولوں میں داخل ہوئے، ان تمام طالب علموں میں تقریباً 50 فیصد طلبہ اور 50 فیصد طالبات شامل ہیں۔ اسی طرح سکولوں کی تعداد بھی طلبہ و طالبات کیلئے تقریباً برابر ہے۔ حکومت وقت جب بھی سکول بناتی ہے توسکیم کی منظوری سے پہلے یہ اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ سکول کی عمارت جس میں سکول کے سربراہ کا کمرہ، کلاس رومز، لائبریری، حکومت پنجاب کے تعلیمی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق آج کل سکولوں کی نگرانی کا نظام بنایا گیا ہے جسے مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن سسٹم کہا جاتا ہے، اس سسٹم کے تحت حکومت پنجاب نے 36 اضلاع کیلئے 942 مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن اسسٹنٹ بھرتی کر رکھے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق مانیٹرنگ کے عمل پر اٹھنے والا سالانہ خرچ 282,600,000 روپے ہے۔ (اگر ایک مانیٹرنگ اسسٹنٹ کی ماہانہ تنخواہ 25ہزار روپے ہو) یہ خرچ اضافی ہے اور اس لئے خرچ ہوتا ہے کہ تعلیمی عملہ اپنا کام ایمانداری سے کرتا ہے ورنہ یہ تقریباً پونے تین ارب سے زیادہ کا بجٹ سکولوں کی ترقی اور بہتری پر خرچ ہو سکتا ہے۔ (محمد فاروق )