نوجوان طبقات کی مایوسیاں ختم کرکے انہیں اپوزیشن تحریک کا چارہ بننے سے روکا جا سکتا ہے
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایک کھرب روپے کے ساتھ ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ کے اجراء کی منظوری
وفاقی کابینہ نے ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ کی گزشتہ روز منظوری دیدی جس کے تحت نوجوانوں کیلئے روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کئے جائینگے۔ اس پروگرام کیلئے سو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم نے جامع ایجوکیشن پالیسی کا مسودہ بھی پیش کیا۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کو اجلاس میں ہونیوالے فیصلوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ حکومت نوجوانوں کیلئے قرض کی شرح سود کا کچھ بوجھ خود اٹھانے جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ نوجوان نسل ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریگی۔ انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کو ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک کا قرض چھ فیصد شرح سود پر اور دس فیصد ایکویٹی پر دیا جائیگا جبکہ پانچ لاکھ سے پچاس لاکھ تک کا قرض 20 فیصد ایکویٹی پر دیا جائیگا۔ اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے یوتھ افیئرز عثمان ڈار نے کہا کہ ملک بھر کے نوجوانوں کیلئے اچھی اور بڑی خبر ہے جو کامیاب جوان پروگرام میں موجود ہے۔ انکے بقول اس مد میں وفاقی کابینہ سے خطیر رقم کی منظوری نوجوانوں کی بڑی کامیابی ہے۔ ہم اس پروگرام سے وزیراعظم کے نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے پروگرام کو آگے بڑھائیں گے۔ انکے بقول اس پروگرام سے دس لاکھ نوجوان براہ راست مستفید ہونگے۔ یہ پروگرام ملک کے نوجوانوں کی قسمت بدل سکتا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ روایتی جماعتوں کے قائدین صرف اپنے بچوں اور اپنے مستقبل کیلئے فکرمند ہیں جبکہ عمران خان کو قوم کے بچوں کا مستقبل سنوارنے کی فکر ہے۔ انکے بقول وفاقی کابینہ نے کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت دیئے جانیوالے قرضوں میں 25 فیصد کوٹہ نوجوان خواتین کیلئے مختص کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام کو درپیش گھمبیر مسائل میں بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ملک کے قابل قدر سرمائے کے طور پر موجود لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریاں ہاتھ میں لئے ملازمتوں کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں جو روزگار نہ ملنے سے خود بھی مایوسی اور ذہنی گراوٹ کا شکار ہوتے ہیں جبکہ انکے والدین بھی اپنے مستقبل کا سہارا بننے والی اپنی اولاد کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو دیکھ کر حالات کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری بڑھنے کی بڑی وجہ سابقہ حکمرانوں کی جانب سے میرٹ کا جنازہ نکالنا‘ اقرباپروری اور کرپشن کلچر کو فروغ دینا اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تقاضوں کا ادراک نہ کرنا ہے جس کے باعث ملک میں روزگار کے مواقع محدود ہوتے گئے اور سرکاری اور نجی شعبہ میں نئے مواقع نکالنے کیلئے کوئی تردد بھی نہ کیا گیا چنانچہ ملک میں بے روزگاری کا سیلاب آگیا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے خاکروب اور چپڑاسی کی نوکری کا حصول بھی مشکل ہوگیا۔ اس صورتحال میں اپنے مستقبل سے مایوس ہونیوالے نوجوانوں نے خودکشی یا جرائم کی دنیا میں داخل ہونے کا راستہ اختیار کیا نتیجتاً ملک میں چوری‘ ڈکیتی‘ راہزنی‘ قتل و غارت گری اور سٹریٹ کرائمز میں بتدریج اضافہ ہونے لگا اور عملاً افراتفری کا ایساماحول پیدا ہوگیا جو کسی معاشرے کو غیرمتوازن بنانے کا باعث بنا کرتا ہے۔
ملک پر طاری غیریقینی کی اس فضا میں عمران خان نے کرپشن فری سوسائٹی اور فلاحی ریاست کا نعرہ لگایا اور نوجوان طبقہ کو اچھے مستقبل کی نوید سنائی تو اپنے مستقبل سے مایوس ہونیوالے یہی نوجوان انکے دست و بازو بن گئے۔ اس تناظر میں ملک کا نوجوان طبقہ ہی عمران خان اور انکی جماعت تحریک انصاف کی اصل طاقت ہے اور انہیں اقتدار کی مسند تک پہنچانے میں بھی نوجوان طبقے کا ہی زیادہ عمل ہے جس نے عمران خان کی عوامی تحریک سے انتخابی مراحل کے اختتام تک انکے تبدیلی اور نئے پاکستان کے ایجنڈا کو سرخرو کرنے کیلئے متحرک کردار ادا کیا اور وہ عملاً انکی ڈھال بنے رہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے نوجوانوں کو اپنے اچھے مستقبل کیلئے امید کی کرن نظر آنے لگی تاہم ملک کی اقتصادی مشکلات سے عہدہ برأ ہونا پی ٹی آئی حکومت کی اولین ترجیح بن گئی کیونکہ ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرکے ہی اپنے اقتدار کو تقویت پہنچائی جاسکتی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دس ماہ اسی کشمکش میں گزر گئے اور حکومت کی توجہ برادر مسلم اور دوست ممالک سے بیل آئوٹ پیکیج لینے اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر ہی مرکوز رہی۔
بے شک وزیراعظم اور انکی کابینہ کے ارکان نوجوانوں کے اچھے مستقبل کی نوید سناتے رہے اور انہوں نے دس لاکھ نئی نوکریاں نکالنے کا بھی اعلان کیا تاہم اس معاملہ میں کوئی عملی پیش رفت نہ ہوپائی جبکہ قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کی پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی سے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہونے لگا اور پھر سرکاری اور خودمختار اداروں میں کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کرنے کے عمل سے ملک میں مہنگائی کی طرح بے روزگاری کا بھی سیلاب آگیا جو پڑھے لکھے نوجوانوں میں مایوسی بڑھانے کا باعث بنا۔
یہ صورتحال یقیناً حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ تھی کیونکہ عوام بالخصوص نوجوانوں نے اپنے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گوناں گوں مسائل میں فوری ریلیف کیلئے ہی عمران خان کو اپنے مسیحا کا درجہ دیا اور انہیں اقتدار کے مینڈیٹ سے سرفراز کیا تھا۔ یہ امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ضمنی میزانیوں کے ذریعے نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور ادویات کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کے باعث اٹھنے والے مہنگائی کے سونامیوں نے عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ان مسائل سے عاجز آکر تہیۂ طوفان کئے بیٹھے ہیں جسے بھانپ کر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت کیخلاف طوفان اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔ اس فضا میں اپنے مستقبل سے مایوس ہونیوالے نوجوانوں کو کسی حکومت مخالف تحریک کیلئے استعمال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یقیناً وزیراعظم عمران خان اور انکی ٹیم کو حالات کی اس نزاکت کا بخوبی ادراک ہے۔ چنانچہ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملہ پر سیرحاصل بحث مباحثہ کراکے نوجوان طبقات کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے کی ایک ٹھوس جامع پالیسی طے کرلی جو ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ کے تحت ملک کے نوجوانوں کیلئے نہ صرف ملازمتوں کے مواقع نکالے گی بلکہ انہیں اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے بھی آسان قرضوں کی شکل میں مالی معاونت فراہم کریگی۔ اس سکیم میں نوجوان خواتین کیلئے 25 فیصد کوٹہ مختص کرنا باصلاحیت خواتین کیلئے آگے بڑھنے اور انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے اچھے مواقع فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ اس سکیم کیلئے ایک کھرب روپے مختص کرنا ہی ہر باصلاحیت مگر بے روزگار نوجوانوں کیلئے سکیم سے مستفید ہونے کی ضمانت ہے۔ اگر اس سکیم کو نوجوانوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے عہد کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار کردیا گیا تو اس سے مستقبل کے معمار نوجوانوں پر حاوی ہونیوالے مایوسیوں کے بادل چھٹ جائینگے جو پی ٹی آئی کا ہی نہیں‘ ملک کا بھی قیمتی اثاثہ بنیں گے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ماضی جیسے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیا جائے بلکہ حقیقی عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور اس سکیم کا حشر پچاس لاکھ گھروں کی سکیم جیسا نہ ہونے دیا جائے۔
آج اپوزیشن جماعتیں جس طرح حکومت کا گھیرا تنگ کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہیں‘ اگر حکومت نے اپنے مستقبل سے مایوس ہونیوالے نوجوانوں میں امید کی جوت جگا دی اور انہیں اپنے خاندانوں کی کفالت کے قابل بنا دیا تو اپوزیشن کو انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ اس کیلئے بہرصورت عملیت پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا بصورت دیگر بے روزگار نوجوانوں میں اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی بڑھے گی تو پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ وابستہ ان کا رومانٹسزم بھی ٹوٹنے لگے گا اور وہ پی ٹی آئی کے اقتدار کیلئے ڈھال کا کردار ادا کرنے سے بھی گریزاں نظر آئینگے۔ یہ صورتحال ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ کو اسکی روح کے مطابق عملی جامہ پہنانے کی متقاضی ہے تاکہ عمران خان کے دست و بازو نوجوان طبقات بدستور انکی ڈھال بنے رہیں۔