نگرانی سے نگہبانی تک
الیکشن کمشن پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کیلئے جولائی کے آخری ہفتے کی ممکنہ تاریخیں تجویز کرکے سمری صدر کو ارسال کر دی ہے۔ دیکھیں اب صدر ممنون حسین کونسی تاریخ مقرر کر کے قوم کو مستقبل کی کوئی اچھی نوید کا باعث بنتے ہیں۔ یقیناً تاریخ مقرر ہونے کے بعد ملک میں انتخابی مہم شروع کر دی جائے گی اور اقتدار کے حصول کیلئے کئیمجنوں دیوانہ وار اپنا جوش و جذبہ دکھانا شروع کر دیں گے۔ ابھی تو سابق وزیراعظم اپنی نااہلی کے بعد عوام سے گھلتے ملتے اور جلسوں میں آئی لو یو کہتے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ نگران وزیراعظم اور نگران کابینہ کیلئے شناخت پریڈ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہر پارٹی اپنی مرضی کا وزیراعظم اور وزیر لانا چاہتی ہے۔ دیکھیں اب قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ نگرانی سے نگہبانی کا یہ سفر کس طرح مکمل ہوتا ہے۔ ابھی تو موجودہ وزیراعظم 26 مئی کو انٹرچینج بستی دار شجاعباد سی پیک کا افتتاح کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ 31 مئی تک جتنی افتتاحی تختیاں اپنے نام کر لی جائیں بہتر ہے۔ امید ہے قومی خزانہ بھی آنے والی نئی حکومت کیلئے اس کی صلاحیتوں کا منتظر ہو گا۔ خدا کرے جن منصوبوں کی افتتاحی تختیاں موجودہ حکومت نصب کر رہی ہے وہ اپنے پایہ تکمیل کو بھی پہنچیں۔ ملک میں انصاف کے حصول اور فراہمی کیلئے بھی اس وقت فضا خاصی حوصلہ افزا دکھائی دے رہی ہے۔
تحریک انصاف کے عمران خان نے سودن کا اپنا حکومتی پلان بھی پیش کر دیا ہے جس میں لوگوں کو گھروں اور نوکریوں کی نوید بھی سنائی ہے۔ موجودہ حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی کی سکیم منظور تو کرا لی ہے۔ اب دیکھیں آنے والی نئی حکومت اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھاتی ہے یا اسے اپنے لئے زحمت سمجھتی ہے۔ سابقہ ادوار میں بھی لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر خاصے دلفریب نعرے سننے کو ملے ہیں۔ خدا کرے اب نئیآنے والی حکومت اپنے منشور کو صحیح معنوں میں عوامی بنا کر اس پر عملدرآمد بھی کرائے۔ اگر حکومت ہر سال بے روزگاری کا گراف کم کرے۔ لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر گھروں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی ملنے لگیں تو شاید حکومت کی اپنی دردسری بھی ختم ہوتی نظر آئے اور حکمرانوں کی بجائے عوام کے دن بھی بدلتے اور سنورتے نظر آئیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سحری اور افطاری میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ۔ ایک ماہ میں تیسرا بڑا بریک ڈاؤن۔ کئی شہروں کو اندھیروں میں دھکیل چکا ہے اور ہم لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔
ملک کے بیشتر شہروں میں ٹریفک کے حادثات رونما ہو رہے ہیں اور ہمارے ٹریفک وارڈن محکمے کی طرف سے دیا گیا ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے شہریوں کو تنگ کرنے کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ شارٹ سرکٹ کے نتیجے میں لوگوں کے کاروبار اور گھر تباہ ہو رہے ہیں مگر اس طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ فوج دہشت گردی کی جنگ میں اپنے افسران اور سپاہیوں کی جانیں قربان کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ حلقے فوج کے خلاف باتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ سبیکا شیخ جیسی ہونہار طالبہ امریکی دہشت گردی کا شکار ہو گئی ہے اور قوم کی بہادر بیٹی عافیہ صدیقی امریکی جارحیت اور بربریت کا شکار ہو کر امت مسلمہ کیلئے ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ پھر بھی امریکہ بہادر ایک سپر پاور اور جمہوریت کا چیمپئن ہے اور پاکستان سے ڈو مور کا فرمائشی پروگرام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اور مودی جیسے ظالم حکمران کیلئے ہمارے حکمرانوں کے دل میں نرم گوشہ رہتا ہے اور ہم امن کی آشا اور فاختہ کے گیت گاتے رہتے ہیں۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے عوامی راج پارٹی کے بلا مقابلہ چیئرمین بننے کے بعد جمشید دستی نے 2023 ء میں عوامی راج کی پیشن گوئی کر دی ہے ۔ اب جبکہ 2018 ء میں آنے والی حکومت کیلئے الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں۔ قوم ایک بار پھر سے نئی امیدیں اور آس لگائے بیٹھی ہے۔ دیکھیں ا ن کی امیدیں بر آتی ہیں اور آس کے بوٹے ہرے ہوتے ہیں یا پھر پہلے کی طرح ان کی امیدوں پر پانی پڑتا ہے۔ اﷲ کرے ہمارے سیاستدان اور حکمران عوام کی فلاح اور اصلاح کا بھی کچھ سوچتے ہوئے ملک کو ایک فلاحی ریاست ہی بنا دیں۔ ابھی تو ساٹھ دنوں کیلئے نگہبانی کا فریضہ انجام دینے کے لئے نگرانوں کی تلاش جاری ہے۔ کاش ہم ایسے نگرانوں کو جو غیر جانبدارانہ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں آنے والی حکومتوں میں بھی شامل کر کے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی روایت قائم کریں اور اچھے کردار کے حامل سیاستدانوں‘ ٹیکنوکریٹس کو محض نگرانی اور چند دنوں کی نگہبانی کیلئے ہی تلاش نہ کریں بلکہ حکومت میں ایسے افراد کی شمولیت کو بھی یقینی بنائیں۔
ہمارے سیاستدانوں کو بھی آئین کے مطابق اپنے کردار اور اپنی پارٹیوں کو ایسے سانچے میں ڈھالنا چاہئے کہ لوگ ان پر اعتبار کریں ورنہ ہمارے اکثر سیاستدان اور اراکین اسمبلی پہلی حکومتوں میں حلوہ کھانے کے بعد اب ان کی مخالفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی معاملہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والا نظر آرہا ہے۔ کاش ہماری عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی کچھ اپنی اداؤں پر غور کریں ورنہ صورتحال ’’آئینہ ان کو دکھایا تو برامان گئے ‘‘ والی ہی سامنے آئے گی۔ ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہوئے ان کی نگرانی اور نگہبانی کا کوئی مستقل حل سوچیں۔