رمضان ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی
پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز پر جب آخرت کا سامان سستا ہو جاتا ہے یہاں دنیاوی سامان بہت مہنگا ہو جاتا ہے ویسے تو رمضان المبارک کو مقدس اور رحمتوں والا مہینہ کہلاتا ہے لیکن تاجروں کے لئے منافع خوری ذخیرہ اندوزی کے لئے موزوں ترین بن جاتا ہے۔ رمضان سے متعلق مشروبات کھانے پینے کی اشیاء نایاب اور اتنی مہنگی ہو جاتی ہیں کہ عام آدمی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جیسے ہی آمد رمضان ہوتی ہے ہر چیز کے دام دوگنا چوگنا ہو جاتے ہیں۔ چکن رمضان سے پہلے تقریباً200 روپے کلو تھا جو کہ اب 320 روپے کلو سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس طرح مہنگائی کا ایک طوفان ہے جس کو جان بوجھ کر اس مہینے میں پیدا کیا جاتا ہے اور عام آدمی کی زندگی کو مقدس مہینے میں اجیرن بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر معیاری اور دو نمبر مشروبات کھانے پینے کی اشیاء روزہ داروں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہیں۔ یہ سب حکومت کی نااہلی کے باعث بلکہ ایسے لگتا ہے حکومت تو ہے ہی نہیں۔ مہنگی اور جعلی اشیا فروخت ہوتی ہیں اور اس مہینے میں سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے کام کے دام بڑھاتے ہیں۔بقول تاجر حضرات یہی تو کمائی کا مہینہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تاجر اس مہینے میں نیکیوں کی بجائے عذاب کما رہے ہیں۔
پوری دنیا میں ایک اصول ہے ۔ جب بھی مذہبی تہوار آتے ہیں تو اشیاء سستی کر دی جاتی ہیں۔ آج سے دو سال قبل رمضان المبارک میں ‘ میں انگلینڈ گیا۔ انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں بہت تعداد میں پاکستانی رہائش پذیر ہیں لیکن حیرت کی بات یہ تھی اس غیر مسلم ملک میں رمضان کے موقع پر سارے برطانیہ میں سستی اشیا کے ڈھیر لگ گئے جو چاول رمضان سے پہلے 3 پونڈ کے مل رہے تھے وہ رمضان میں 2 سے ڈیڑھ پونڈ کے مل رہے تھے۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک ہم بدقسمت ہیں اس مقدس مہینہ کو منافع خوری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ رمضان کے طفیل قیمت سن کر ہی اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور کچھ غریبوں کے لئے رمضان پریشانی کا مہینہ بن جاتا ہے۔ ایک طبقہ رمضان کو نمود و نمائش کیلئے بھی خوب پیش کرتا ہے۔ یورپ میں عیسائیوں کے تہواروں کی آمد سے پہلے ہی دکانوں میں قیمتوں میں کمی شروع ہو جاتی ہے جو 25 سے 75 فیصد تک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرسمس اور ایسٹر کے موقعوں پر صرف کرسچن ہی نہیں مسلمان بھی عید کے لئے پیشگی خریداری کر لیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں موجود مہنگائی اور ذخیرہ اندوزوں سے نمٹنے کا ایک بہت اچھا حل اشیا کا بائیکاٹ ہے۔ پچھلے سال فروٹ کے بائیکاٹ کی مہم سوشل مڈیا سے شروع ہو کر بہت کامیاب ہوئی۔ بائیکاٹ کی یہ کال سوشل میڈیا کے ذریعے میں نے چلائی تھی ۔فروٹ کے ریٹ تین دن میں آدھے ہو گئے تھے۔ اسی طرح بطور قوم ہم اتحاد کر کے ہی ان غلط لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت بھی اگر ہم صرف چکن کا تین دن کے لئے بائیکاٹ کر دیں تو اس کی قیمت خود بخود نیچے آ سکتی ہے۔ چین میں انڈوں کی قلت سیقیمت بڑھ گئی۔ عوام نے انڈے خریدنے بند کر دئے اور قیمت خود بخود کم ہو گئی۔ اس طرح کے بائیکاٹ کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں۔
اسلام ہمیں مساوات کا سبق دیتا ہے۔ اسلام جو کہتا ہے آپ کا پڑوسی بھوکا نہ سوئے لیکن رمضان شروع ہوتے ہی مسلمان ناجائز منافع کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ دس روپے کی چیز50 روپے کی ہو جاتی ہے۔ سبزیاں‘ پھل‘ گوشت ‘ اشیائے خورد و نوش کی چیزیں اتنی مہنگی ہو جاتی ہیں کہ اچھا خاصا کمانے والے کا بجٹ بھی بگڑ جاتا ہے۔متوسط اور غریب طبقات کے دستر خوان پر جو کبھی ماضی میں پھل دکھائی دیتے ہیں مہنگائی کی وجہ سے غائب ہو جاتے ہیں۔رمضان کا سب سے زیادہ اثر اس طبقہ پر پڑتا ہے جن کے لئے زندگی پہلے ہی بہت مشکل اور ضروریات زندگی شجر ممنوعہ ہوتی ہیں۔ غریب دیہاڑی دار جو روز تازہ کماتے اور کھاتے ہیں جن کو ایک دن کام نہ ملے تو دوسرے دن گھر فاقہ ہوتا ہے۔ ان کے لئے اس مہنگائی کا مطلب ہے فاقوں میں اضافہ۔ سیاسی لوگ اور مذہب کے ٹھیکیدار تنظیموں کے قائدین رمضان میں افطار پارٹیاں کرتے ہیں اور اس میں نمائش کے چکر میں ایک دن میں لاکھوں خر چ کر دئے جاتے ہیں۔ اس سے ہزاروں غریبوں کی مہینہ بھر کی افطاری کا انتظام ہو سکتا ہے۔ تاجر برادری سے گزارش ہے کہ رمضان المبارک اﷲ کی رحمتوں نعمتوں کی برسات کا موسم ہے۔ ایسا نہ ہو آپ دنیاوی منافع کے کاروبار میں لگ کر اس بابرکت مہینہ کی چند روزہ برکتوں سے محروم ہو جائیں۔ کوشش کیجئے اس لعنت سے بچیں۔ اﷲ پاک ہم سب کو ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے حفاظت فرمائے اور جس طرح انبیاء علیہ السلام نے تجارت کی ہے اور حضورؐ نے تجارت کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔