دودھ کے نام پر زہر کی فروخت
ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری او رمنافع خوری کے لالچ میں مبتلا ہوس پرستوں کی وجہ سے دنیا میں دودھ پیدا کرنے والے چوتھے بڑے ملک پاکستان کے شہری کیمیکل زدہ زہریلا اور مضرصحت پائوڈر سے تیار ہونے والا دودھ پینے پر مجبور ہیں ،کیمیکل سے تیار ہونے والا ایسنس کو مختلف مراحل سے گزار کر ’’خالص دودھ‘‘ کا نام دے کر شہر بھر میں فروخت کیا جارہا ہے ،مختلف اداروں کی ملی بھگت سے انتہائی مضر صحت اور ناقص دودھ کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھائی جارہی ہیں بھانوں اور ڈیری مصنوعات کی دکانوں میں بڑی بڑی مدھانیوں اور موٹروں کو ڈرموں میں چلا کر ’’فل کریم ملک ‘‘اور ہاف کریم ملک کے نام کے پائوڈر میں پانی ڈال کر اسے ’’خالص دودھ‘‘ کی شکل دی جاتی ہے ،اسے مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے ،عباس نگر کے بیشتر علاقوں میں دہی ،رس ملائی اور پیڑے سمیت کئی مصنوعات بھی اسی ایسنس سے تیار ہونے والے دودھ سے تیار کی جارہی ہیں،پائوڈر سے تیار ہونے والا دودھ دکاندار کو 26 سے 31روپے فی کلو پڑتا ہے ،اور اسے مارکیٹ میں70روپے سے85روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے ،عباس نگر سمیت دیگر علاقوں،خان بیلہ ،نواں کوٹ ،عظیم پور ،بیٹ دیوان ،ٹھل حمزہ ،ملکانی ،شیدانی شریف ،امین آباد ،پکالاڑاں ،ترنڈہ میر خان ،طلبانی ،فیروزہ،لیاقت پور ،اللہ آباد ،ترنڈہ محمد پناہ ،جن پور سمیت مختلف علاقوں میں ایسنس اور کیمیکل دودھ تیار کرنے کی ڈیری مراکز رحیم یار خان ،صادق آباد جیسے بڑے شہروں میں سپلائی کیا جاتاہے ،سفید پائوڈر بوریوں میں بند کر کے مختلف ڈیری فارموں اور بھانہ مالکان کو ترسیل کیا جارہا ہے ، دودھ تیار کرنے والے پائوڈر ہڈی چور (ہڈیوں کا بورایا برادہ) کیمیکل پائوڈر شامل کیا جارہا ہے ،یوریا کھاد،سفید رنگ اور سنگاڑے کا پائوڈر کیمیکلز میں مکس کر نے سے دودھ تیار کے بعد قدرے ٹھنڈا رہتا ہے ،اور دودھ میں کلر سکیم کو برقرار رکھتا ہے ،شہر کے تمام گنجان آباد علاقوں کی مٹھائیوں کی دکانوں پر کھویا ،برفی ،فالودہ ،رابڑی دودھ ،آئس کریم ،دود ھ سوڈا کی بوتلیں ،مخصوص برانڈ کے پیڑے اور دہی تیار کر کے مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہے ،شہر میں عباس نگر سمیت بیشتر علاقوں میں چائے کے ہوٹلوں پر بھی مضر صحت جعلی دودھ استعمال کیا جارہا ہے ،ماہرین کے مطابق فل کریم ملک پائوڈر اور چائنہ پائوڈر سے تیار ہونے والے دودھ میں وقتی طور پر چیکنگ کے دوران فیٹس بھی ظاہر ہوجاتے ہیں ،جو خالص دودھ ہونے کا تاثر دیتے ہیں ،عباس نگر سمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں میں قائم پبلک اینا لسٹ لیبارٹریوں میں بھی مضر صحت دودھ کا تجزیہ کرنے یا جانچنے کیلئے آلات اور کٹس تک دستیاب نہیں ہیں ،مضرصحت دودھ پینے سے بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں ،بچو ںمیں قوت مدافعت کم ہونے سے وہ کمزور اور نحیف ہو جاتے ہیں ،مصنوعی دودھ سے 90فیصد آئس کریم مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہے ،چانجنی ،خان بیلہ اور گردونواح کے شہروں میں گذشتہ 5سالوں سے کسی ذمہ دار محکمے کے اہلکار نے آئس کریم کا لیبارٹری تجزیہ نہیں کیا ،ماہرین کے مطابق مضر صحت دودھ سے تیارآئس کریم کھانے سے بچوں کو آنتوں کی بیماریاں لگ جاتی ہیں جو آنتوں کے کینسر میں تبدیل ہورہی ہے مشاہدے کے مطابق گوالے دیہات سے دودھ خرید کر اپنی اپنی ڈیری کی دکانوں میںجاکر اس سے کریم اور خالص اجزاء نکلوا کر باقی بچ جانے والے دودھ کو بھی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں ،اور اسے کیمیکل زدہ دودھ میں مکس کر دیا جاتاہے۔دیہی علاقوں سے45فیصد سے زائد دودھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اٹھا رہی ہیں جو اس دودھ میں کیمیکلائزیشن کر کے اس کو پیک کرنے کے بعد مارکیٹ میں 4گنا زائد قیمت میں فروخت کر رہی ہیں ،دوسری رپورٹ کے مطابق دودھ دینے والے جانوں کی تعداد کے لحاظ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو نمایاں مقام حاصل ہے لیکن جانوروں کی تعداد اور دودھ کی کل پیداوار میں نمایاں مقام حاصل ہے لیکن جانوروں کی تعداد اور دوھ کی کل پیداوار میں نمایاں حیثیت رکھنے کے باوجود ہمارے ملک میں دوھ کی پیداوار فی جانور کم ہے ،رپورٹ کے مطابق جرمنی میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد بھی پاکستان کی نسبت 300فیصد کم ہے ،لیکن اس کے باوجود جرمنی میں فی جانور دودھ کی مقدار ہمارے مقابلے میں 287فیصدزیادہ ہے ،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں جتنا دودھ ایک گائے دیتی ہے پاکستان میں مجموعی طور پر 7گائیں اتنا دودھ اوسطاً دیتی ہیں۔