نجم سیٹھی بھی خبروں میں رہنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ پاکستان میں ہوں یا بیرون ملک، کرکٹ ہو رہی ہو یا نہ ہو رہی ہو، ٹیم کی کہیں مصروفیت ہو یا نہ ہو جب نجم سیٹھی نے ہیڈ لائنز میں آنا ہے تو پھر آ جانا ہے۔جب انہوں نے اخبارات کی لیڈ بننا ہے تو بن جانا ہے وہ بوقت ضرورت سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی پر اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔
گذشتہ روز انہوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے خلاف عدالتوں میں تمام پیٹیشنز کو خارج، عمران خان کے پینتیس پنکچرز کے الزام،چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے جاری کردہ تعریفی خط کا حوالہ دیا اور تعاون کرنیوالوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ گذشتہ روز ہی ایک مقامی روزنامے میں انکے خلاف نیب میں چلنے والے کیس کو ختم کرنے کی خبر شائع ہوئی تھی۔ ان حالات میں حریفوں پر وار کرنیکا یہ نادر موقع وہ کیسے جانے دیتے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ موجودہ چئیرمین کھلاڑیوں کی طرح میڈیا پر چھا جاتے ہیں۔ کبھی کھلاڑیوں کو ٹوپیاں پہنا کر موضوع بحث ہوتے ہیں تو کبھی اپنے افسروں کی ٹوپیاں بدل کر تو کبھی ٹوپی پہن کر غائب ہونے کے فن سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں۔
جب سے کرکٹ ایڈمنسٹریشن میں آئے ہیں اسی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ کرکٹ دیکھنے کا اپنا ایک نشہ ہے، کرکٹ کھیلنے کا الگ نشہ ہے کرکٹ ایڈمنسٹریشن کا چسکا بھی ایسا ہے کہ جسے لگ گیا بس پھر اس سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ نجم سیٹھی کو ہی لے لیں انہوں نے کرکٹ ایڈمنسٹریشن کے لیے اپنا بھلا چنگا چلتا ہوا پروگرام چھوڑ دیا انکی چڑیا بھی ان دنوں خاصی اداس ہے۔ کیونکہ اسے آزادی دینے کے بجائے پر کاٹ کر قید کر لیا گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت دوبارہ آپس کی باتوں کو عوام تک لانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
ملک کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر بہت سے لوگ جو انہیں کرکٹ بورڈ میں نہیں دیکھنا چاہتے وہ انتخابات کے بعد نئی بننے والی حکومت سے نجم سیٹھی کو گھر بھیجنے کی امید رکھتے ہیں۔ انکے بعض دوست تو ذکا اشرف کے نگران وزیر اعظم بننے اور پھر ان سے ہی این ایس کو فارغ کروانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں خواہشات کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
جہاں تک تعلق نجم سیٹھی کے مستقبل کا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بعد از الیکشن پیدا ہونیوالی صورتحال ممکنہ حکمرانوں اور آئندہ سیٹ اپ کے حوالے سے کسی حد تک آگاہی رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں نجم عزیز سیٹھی تمام ضروری کام انجام دے چکے ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد، لاڑکانہ، راولپنڈی سمیت تمام اہم سٹیک ہولڈرز انکے ساتھ آن بورڈ ہیں اور ملکی طاقت کے تمام مراکز سے انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا جا چکا ہے۔ ان حالات میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید کی طرف سے جاری ہونیوالے تعریفی خط کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری رائے میں مستقبل کی منصوبہ بندی کے پیش نظر نجم سیٹھی وہ تمام حفاظتی اقدامات کر چکے ہیں جو کسی بھی غیر آئینی اقدام کا باعث بن سکتے ہیں۔ یوں وہ اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بھرپور تیاری کیے بیٹھے ہیں۔
جہاں تک تعلق انکے کرکٹ ایڈمنسٹریشن سے جڑے رہنے اور محسوس یا غیر محسوس انداز میں انکی حمایت کرنیوالوں کا ہے تو نجم عزیز سیٹھی کو یہ حمایت، ہمدردی اور حوصلہ افزائی صرف اور صرف انکے کام کیوجہ سے ملی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے کامیاب انعقاد، ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی مرحلہ وار واپسی، بیرونی دنیا میں کرکٹ کے ذریعے ملکی ساکھ میں بہتری ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے نجم سیٹھی کو ایک کامیاب کرکٹ ایڈمنسٹریٹر کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ نیب کی طرف سے کلین چٹ تو بعد میں ملی ہے کامیاب کرکٹ منتظم کا سرٹیفکیٹ پاکستان کی عوام انہیں پہلے ہی دے چکی ہے۔
نیب سے کلین چٹ کے بع کرکٹ بورڈ میں آپریشن کلین اپ بھی شروع ہو جانا چاہیے۔انہیں بورڈ میں مزید استحکام لانے کے لیے بھی کام کرنا ہو گا۔ تین یا چھ ماہ والے کنٹریکٹ کا سلسلہ بند کر کے پر سکون ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بھاری تنخواہوں کے مزے لینے والوں کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینا ہو گا۔ یہ جو افسران کم وقت کے لیے آتے ہیں اور زیادہ مراعات لیتے ہیں انکو بھی ٹھیک کرنیکی ضرورت ہے۔گراونڈ سٹاف نے پی ایس ایل میچز کے دوران بہت محنے اور دلجمعی سے کام کیا تھا حوصلہ افزائی کے لیے انکا بھی خیال رکھا جائے تو بہتر ہو گا۔
دوسری طرف انکی اہلیہ سیدہ بی بی جگنو محسن سیاست کے میدان میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قسمت آزمائی کا فیصلہ کر چکی ہیں۔ستائیس مئی کو پی پی 184 میں ایک جلسہ عام کے ذریعے وہ باقاعدہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی کر رہی ہیں۔ جگنو محسن نے بھی مشکل وقت مسٹر سیٹھی کا ساتھ خوب نبھایا ہے تاہم اب انکی پوری توجہ اپنے حلقے کی سیاست پر ہے جہاں وہ کافی عرصے سے صحت، تعلیم، خواتین کی ترقی اور دیگر شعبوں میں خاصا کام کر چکی ہیں۔ مخصوص سیٹوں کے بجائے براہ راست الیکشن لڑنے کا فیصلہ دلیرانہ ہے۔ انہوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ ملکر نئی اننگز کی تیاری شروع کی ہے انکا مقابلہ روایتی سیاستدانوں سے ہے غیر روایتی انداز میں کام کرنیوالی جگنو محسن اس شعبے میں کامیاب رہتی ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن وہ پرعزم ہیں کہ حقیقی تبدیلی کے سفر کا آغاز ہم کر چکے اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سفر میں جسے بہتر سمجھیں اسکا ساتھ دیں۔۔۔۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024