بجلی کا پھر بڑا بریک ڈائون ، لمحہ فکریہ
فنی خرابی کے باعث 100 سے زائد گرڈ سٹیشنز بند ہونے سے لاہور سمیت کئی شہروں میں بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی۔ بجلی کی طویل بندش نے زندگی مفلوج کردی اور روزہ داروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
چند روز قبل بھی پنجاب اورخیبرپی کے میں بجلی کا بڑابریک ڈائون ہوا تھا۔اس کی انکوائری مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ مین ٹرانسمیشن لائن میں خرابی پیدا ہوگئی۔ روات راولپنڈی میں 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن میں خرابی کے باعث بجلی بند ہوئی تو خرابی دو تین گھنٹے بعد ٹھیک ہوگئی تھی اس کے ساتھ ہی کالا شاہ کاکو میں این ٹی ڈی سی کے 220 کے وی گرڈ سٹیشن میں ٹرپنگ ہوئی جس نے گیپکو، فیسکو اور میپکو کے سسٹم کو بھی متاثر کیا اور گدو ٹرانسمیشن لائن بھی ٹرپ کر گئی مگر پروٹیکشن سسٹم بروقت فعال ہونے سے باقی پاور پلانٹس بچ گئے۔یہ بھی متاثر ہوتے تو پورے ملک میں بجلی بند ہونے سے افراتفری پیدا ہوجاتی۔حکومت کی طرف سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ وزراء اور وزیراعظم اعلان کرتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے۔ یہ شاید حقیقت بھی ہو مگر عوام تک ابھی بلاتعطل بجلی نہیں پہنچ پا رہی۔ اس کا دفاع حکومتی اکابرین یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ترسیلی سسٹم اپ ڈیٹ ہونے والا ہے، یہ کس نے کرنا تھا؟۔ فیڈرز کی یہ حالت ہے کہ بارش کے پہلے قطرے اور ہوا کے ایک تیز جھونکے سے یہ ٹرپ کر جاتے ہیں۔ اب تو یہ سورج کی تپش بھی برداشت نہیں کر پا رہے۔ لوڈشیڈنگ کی یہ حالت ہے کہ سابق وزیراعظم احتساب عدالت میں بیان ریکارڈ کرا رہے تھے کہ بجلی چلی گئی۔ احسن اقبال ایک تقریب میں خطاب کے دوران لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو حکومت کا کارنامہ قرار دے رہے تھے کہ عین اس موقع پر بھی بجلی بند ہو گئی۔ ایک انکوائری مکمل نہیں ہوئی کہ ایک اور بڑے بریک ڈائون کا ہو جانا حیران کن ہے۔ کیا متعلقہ اداروں نے پہلے بریک ڈائون کے بعد سسٹم کو درست رکھنے پر توجہ نہیں دی؟ حکومت یہ بھی سوچے کہ پیپلزپارٹی کی انتخابات میں شکست کی ایک وجہ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی تھا۔ مسلم لیگ ن کو عوامی پلیٹ فارم پر راندہ درگاہ بنانے کیلئے کہیں کوئی شرارت تو نہیں ہو رہی۔