بدھ ‘ 7؍ رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 23؍ مئی 2018ء
صحافی نے رمضان المبارک کا بتایا تو دانیال عزیز نے چیونگم نگل لی
ہمارے ہاں مالدار طبقے یا اشرافیہ میں روزے کی مشقت کا زیادہ رواج نہیں۔ یہ تو ایک مخصوص طرزِ زندگی کے عادی ہیں۔ مقررہ وقت پر سونا مقررہ وقت پر جاگنا ، ان کا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا بھی عام لوگوں سے بالکل الگ ہے جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں انہوں نے اسی کی بدولت دُنیا کو جنت بنا لیا ہے اس لئے شاید وہ تو سحری اور افطار کی لذت سے بھی محروم ہیں۔ جب گھر سے لیکر گاڑی تک دفتر سے لے کر کلبوں تک اے سی کی کولنگ ہو۔ کھانے کی میز پر انواع قسم کے مرغ و ماہی ، من سلویٰ کی شکل میں پائے جاتے ہوں انہیں کسی اور صلے کی تمنا کیا ہو گی۔ یہ عبادات و ریاضت تو اُمت کے عام لوگوں کا طرہِ امتیاز ہے جو اس دُنیاوی جہنم میں جُھلستے ہوئے آخرت کے آرام کی جنت کی تمنا کرتے ہیں۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے بھلا جنت کا مزہ کیا جانیں۔ اب یہی دیکھ لیں میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے ہمارے صحت مند جوان فکر لیڈر دانیال عزیز بڑے مزے سے چیونگم چبا رہے تھے۔ اس دوران کسی صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ حضرت آج کل رمضان ہے۔ تو انہوں نے جھٹ چیونگم پھینکنے کی بجائے نگل لی تاکہ کوئی اور دیکھ نہ لے۔ یہ تو وہی حالت تھی جب کمرہ امتحان میںکسی طالب علم کو ’’بوٹی‘‘ پکڑی جانے کا خوف ہو تو وہ یکدم اسے منہ میں ڈال کر نگل لیتا ہے چاہے اس عمل کے دوران اسے بوٹی گلے میں پھنسنے کی وجہ سے دن میں تارے ہی کیوں نہ نظر آئیں۔ ہمارے طالب علموں کی طرح لگتا ہے دانیال عزیز بھی اس کام میں ماہر ہیں۔
٭……٭……٭
ہاکی کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے مزید دو غیر ملکی کوچز کا تقرر
ہم لوگوں نے یہ فارمولہ طے کر رکھا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل غیر ملکیوں کے پاس ہے۔ جہاں کوئی مسئلہ ہو اسے خود حل نہیں کرنا بھاری مشاہیر پر غیر ملکیوں کو بلا کر وہ مسئلہ اس سے حل کرانا ہے۔ خدا جانے ہمارے دماغوں میں یہ بات کس نے بٹھا دی ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل دوسروں کے پاس ہے ہم خود کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے نہ ہم ترقی کر پائے ہیں نہ ہی ہمارے مسائل حل ہوئے ہیں۔ کیونکہ غیر ملکیوں کو تو اپنے بھاری مشاہیر میں دلچسپی ہے وہ تو چاہتے ہیں کہ مسائل ختم نہ ہوں اور ان کی دال روٹی چلتی رہے۔ ہم تو اتنے گئے گزرے ہیں کہ ملکی ترقی کیلئے بھی ہم دوسروں کے محتاج ہیں۔ کرکٹ ہو ہاکی ہو یا فٹبال ہم ہر کھیل میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کیلئے دوسروں کے محتاج نظر آتے ہیں۔ کرکٹ کی ہو یا فٹبال کی بہتری کے لئے بھی غیر ملکی کوچ منگواتے ہیں۔ اب ہاکی جو ہمارا قومی کھیل ہے اپنے ایشیائی سٹائل کی وجہ سے دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ اب اس میں بہتری کے لئے مزید دو غیر ملکی کوچ منگوائے جا رہے ہیں۔ یوں رہی سہی ایشیائی سٹائل کی ہاکی بھی اب نابود ہو جائے گی جو پہلے ہی آسٹروٹرف کی وجہ سے ختم ہونے کے قریب ہے۔ آخر ہمارے اپنے پرانے کھلاڑیوں کو کیا ہوا ان کی صلاحیتوں کو کیا زنگ لگ گیا ہے کہ ان کی خدمات حاصل نہیں کی جا رہیں کیا غیر ملکی کوئی وکھری ٹائپ کی ہاکی کھیلتے ہیں جو انہیں بلایا جا رہا ہے وہ بھی بھاری معاوضے دے کر…
پی آئی اے کی شہزادہ ہیری اور میگھن کو شمالی علاقوں کی سیر کی دعوت
برطانوی شاہی جوڑا ہنی مون منانے افریقہ جائے گا اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہی جوڑے کو قدرتی مناظر اور جانوروں سے محبت ہے۔ اسی لئے وہ دیناوی شور شرابے اور بناوٹی ماحول سے بہت دور اپنی سہانی گھڑیاں بسر کرنا چاہتا ہے جہاں کوئی پریشانی نہ ہو۔ افریقہ کے گھنے جنگلات وہاں آزادانہ گھومتے پھرتے جانور دریا اور پہاڑ ہمیشہ سے سیاحوں کیلئے پرکشش رہے ہیں بس ذرا شیروں اور دوسرے درندوں سے بچنا ہوگا جو یہ نہیں دیکھتے کہ کون دشمن ہے اور کون مہمان۔ رہے افریقی جنگلی قبائل تو وہ کب کے شہری ہو چکے اب آدم خوری سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بس میگھن کو فکر کرنی پڑے گی۔ شہزادے کی کہ کہیں وہ غزالان دشت یا کسی چشم آھو کے تعاقب میں نہ نکل جائیں ویسے بھی افریقہ کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہمارے شمالی علاقے بھی کسی جنت سے کم نہیں مگر وہاں کی زبوں حالی اور دہشت گردوں کے خوف نے سیاحوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود پی آئی اے نے نئے جوڑے کو وہاں آنے کی دعوت دی ہے جو بہت اچھی بات ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر اچھا اثر پڑے گا۔ دنیا بھر کو پتہ چلے گا کہ سیاحوں کیلئے پاکستانی شمالی علاقہ جات میں حالات اب ساز گار ہیں اور وہ بھی ادھر کا رخ کریں گے۔ نئے شاہی جوڑے میں خدا ترسی اور نسانی ہمدردی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے انہوں نے اپنے تمام چاہنے والوں سے کہا ہے کہ وہ انہیں ذاتی تحائف نہ بھیجیں بلکہ انہوں نے متعدد فلاحی تنظیموں کے نام دے کر کہا ہے کہ انکے چاہنے والے انکو عطیات بھیجیںجس کے جواب میں ان اداروں پہ عطیات کی بارش ہو رہی ہے…۔
٭……٭……٭
سندھ میں گرمی کی لہر جاری، حکومت نے گرمی سے 63اموات کا دعویٰ مسترد کر دیا
سندھ میں سورج ایک بار پھر قہر برسا رہا ہے۔ سمندری ہوائیں بھی روٹھ گئی ہیں۔ درجہ حرارت تو سیاسی درجہ حرارت سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو سندھ حکومت نے اس موسمی حملے سے بچائو کے ذرا بھر بھی حفاظتی اقدامات کئے ہوں۔ بس ہیٹ ویو سے بچنے کے اعلانات نشر کئے گئے اس کے بعد خاموشی۔ ایدھی والے بتا رہے ہیں کہ 3 روز میں 65 افراد ہیٹ سٹروک سے ہلاک ہوئے۔ حکومت ا س پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اسے جھوٹ قرار دے رہی ہے۔ ایک تو روزے اوپر سے گرمی کی لہر لگتا ہے پورا سندھ صحرا بن گیا ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں باقی شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ جہاں لوگ پانی اور بجلی کے علاوہ صحت کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت کی طرف سے ہر علاقے میں فوری طبی امداد کا مرکز ہو جہاں ادویات و علاج کی سہولت دستیاب ہو۔مگر انہوں نے تو ہندوئوں اور انگریزوں کی بنائی ہوئی پانی کی سبیلیں تک توڑ کر ان کی جگہوں پر قبضہ کر لیا ۔ جانوروں کے تالاب تک ہڑپ کرلئے ہیں۔ صوبے میں حکومت اور کچھ نہیں اگر شجر کاری ہی کرتی تو یہ موسمی تبدیلی اتنی خطرناک نہ ہوتی۔ مگر جو لوگ آبی ضرورت پوری کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم بنانے پر تیار نہیں وہ باغات اور جنگلات کہاں سے لگائیں گے۔ انہیں سندھ کا بنجر بننا منظور ہے۔ کالا باغ ڈیم بنانا قبول نہیں…
٭……٭……٭