افغانستان کے بارے میں مکمل تحقیقی کام پاکستان میں ہونا چاہیئے تھا اگر کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے نے کیا ہو تو وہ منظر عام پر نہیں آیا۔ امریکی اور مغربی مصنفین افغانستان پر معیاری تحقیقی کام بڑے عزم اور جذبے سے کرتے ہیں۔
معروف عالمی مؤرخ سٹیوکول "Steve Coll" کی ایک کتاب "Directorate S. Secret Wars in Afganistan and Pakistan" شائع ہوئی ہے جس میں افغانستان میں سٹریٹجک بلنڈرز کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ نائین الیون کے تین ماہ بعد امریکی افواج نے افغانستان پر بمباری کرکے طالبان حکومت کو ختم کیا۔ القاعدہ کے مجاہدین کو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی جانب مفرور ہونے پر مجبور کیا اور حامد کرزئی کی سربراہی میں افغان حکومت قائم کردی ۔ امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان کی طویل جنگ پر ایک کھرب ڈالر خرچ کیے۔ 2500امریکی فوجی جان بحق ہوئے جبکہ ایک لاکھ 75ہزار پاکستانی اور افغانی شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ سولہ سالہ طویل جنگ کے دوران افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں کمی بیشی کی گئی اور ابھی افغان جنگ کے نتائج کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتاجو سٹریٹجک بلنڈر کا کھلا ثبوت ہے۔
سٹیوکول قبل ازیں ’’گھوسٹ وارز‘‘ کے نام سے شہرہ آفاق کتاب لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی کے اشتراک سے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ (1979-2001) کے بارے کئی انکشافات کیے تھے۔ سٹیو کول نے اپنی نئی کتاب میں امریکی سٹریٹجی کی کمزوریوں، غلطیوں اور ناکامیوں کی دوٹوک نشاندہی کی ہے اور ان کو ’’سٹریٹجک بلنڈرز‘‘ قراردیا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج بش اور بارک اوباما ورلڈ سپر پاور ہونے کے باوجود افغانستان میں عاجز اور بے بس نظر آئے۔ مصنف کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں ملوث ہونے کے بعد عراق میں دوسرا محاذ کھول لیا اور حامد کرزئی اور افغانستان میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے صائب مشورے کو نظر انداز کیا جو انہوں نے افغان طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں دیا تھا۔ مناسب وقت پر مناسب اقدام سے گریز کرکے بڑی غلطی کی گئی۔ اگر اس موقع پر طالبان سے گفتگو کا آغاز کردیا جاتا تو مختلف جہادی گروپوں کو متحد ہونے کا موقع نہ ملتا۔ امریکہ نے دسمبر 2001ء میں بھی سٹریٹجک بلنڈر کیاجب پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ سے جدید طیارے طلب کیے تاکہ پاکستانی افواج کو ہندوکش پہاڑ کی چوٹیوں پر پہنچا کر تورا بورا سے بھاگنے والے القاعدہ مجاہدین کا راستہ بند کیا جاسکے۔ امریکہ نے طیارے اور تکنیکی مہارت فراہم کرنے سے انکار کردیا اور دہشت گردوں کو قبائلی علاقوں میں روپوش ہونے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے مقامی جہادیوں سے مل کر پاکستان کے مختلف شہروں میں خودکش حملے کرکے قیامت برپا کردی۔
امریکہ نے ایک اور بڑی غلطی یہ کی کہ قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کرتے وقت افغان حکومت اور پاکستان دونوں کو اعتماد میں نہ لیا اور امریکہ کی کوششیں ناکام ہوئیں۔ امریکہ افغانستان میں امن و استحکام بحال کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے میں بری طرح ناکام ہوا۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کو القاعدہ اور داعش کے چیلنجوں کا سامنا ہے اور اس نے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کو مؤخر کردیا ہے۔
1980ء میں جنرل ضیاء الحق کا اندازہ اور تجزیہ درست ثابت نہ ہوا کہ روس کی افواج طویل عرصہ تک افغانستان میں رہیں گی اور پاکستان امریکہ سے مالی امداد حاصل کرتا رہے گا۔ مصنف کے مطابق جنرل پرویز مشرف اور جنرل کیانی کا تجزیہ بھی درست ثابت نہ ہوا کہ امریکی افواج جلد افغانستان سے نکل جائیں گی لہذا دونوں ڈبل گیم کھیلتے رہے تاکہ افغانستان میں پاکستانی اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے ’’اچھے طالبان‘‘ کو استعمال کیا جاسکے۔ سٹیوکول اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ 2005ء میں پاکستان نے افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرلی جب امریکہ کا واضح جھکائو بھارت اور افغان شمالی اتحاد کی جانب ہوگیا۔
رچڑڈ ہالبروک کا تجزیہ درست ثابت ہوا کہ پاکستان افغانستان کو بھارتی اثرورسوخ کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اپنے ہمسایے ملک میں پاکستان کے خلاف نفرت اور تعصب کے جذبات کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ سٹیوکول نے اپنی نئی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ آئی ایس آئی اُسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کے نزدیک روپوش رکھنے میں ملوث نہیں تھی بلکہ پاکستان کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں میں نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے اُسامہ بن لادن کو تلاش نہ کیا جاسکا۔ اگر آئی ایس آئی کا اُسامہ بن لادن کی روپوشی میں کوئی کردار ہوتا تو امریکہ پاکستان سے 2011ء میں کشیدہ تعلقات کی بناء پر ضرور اس کردار کو لیک (فاش) کردیتا۔
سٹیوکول لکھتے ہیں افغانستان کی 1979ء سے 2017ء تک طویل جنگ بندوق، ڈرگ اور جہاد کی داستان ہے۔ افغان قیادت غیر معمولی طور پر نااہل اور شرمناک حد تک غیر مؤثر اور پرلے درجے کی کرپٹ ثابت ہوئی۔ طالبان نے افیون کاشت کرنے والے علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا اور افیون کی کاشت تشویشناک حد تک بڑھ گئی حالاں کہ بیرونی ممالک کی سکیورٹی فورسز نے کئی بار افیون کی فصلوں کو جلا کر راکھ کیا۔ امریکہ اپنی سٹریٹجک بلنڈرز کی وجہ سے آج بھی افغانستان میں پھنسا ہوا ہے۔ مصنف کے مطابق افغانستان کا مسئلہ روس، چین، پاکستان، بھارت اور ایران کی مشاورت اور معاونت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں گڈگورنینس کے اُصول پر عمل کرکے ہی ریاستی ادارے مضبوط اور مستحکم بنائے جاسکتے ہیں۔ واشنگٹن کابل اور اسلام آباد افغان طالبان سے بامقصد اور بامعنی مذاکرات کریں وگرنہ افغانستان کی طویل جنگ مزید طوالت اختیار کرسکتی ہے جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کے علاقے دہشت گردی کے خطرات سے دوچار رہیں گے بلکہ عالمی امن بھی خطرے کی حالت میں رہے گا۔
پاکستان اور افغان حکومتوں نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور تنائو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ ’’افغانستان پاکستان ایکشن پلان فارپیس اینڈ سالیڈیرٹی‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
افغانستان کے ڈپٹی وزیرخارجہ حکمت خلیل کرزئی اور پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کی پرخلوص کوششیں رنگ لائی ہیں۔ دونوں ملکوں نے اعتماد بحال کرنے والے اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان اگر دونوں بقائے باہمی اور مشترکہ ترقی کے اُصولوں پر پائیدار اور مستقل مفاہمت کرلیں تو اپنی آئیڈیل جیو سٹریٹجک لوکیشن کی بناء پر اگلی دہائی میں پیدا ہونے والے معاشی امکانات سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ کاش پاکستان کے سیاستدان جنوبی ایشیا کے بارے میں شائع ہونے والی تحقیقی کتب کا مطالعہ کرلیں تو ان کو پاکستان کی سلامتی کے بارے میں سنجیدہ چیلنجوں سے آگاہی ہوسکے اور وہ ایسے سیاسی بیانیے سے گریز کریں جس سے ریاست کی مشکلات میں اضافہ ہونے کا احتمال اور ترقی کے امکانات مخدوش ہونے کا خطرہ ہو۔ پاکستان تاریخ کے دوراہے پر پہنچ چکا ہے۔ اجتماعی دانش مفاہمت، بلوغت، بصیرت اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرکے ہی ہم سنگین خطرات کا مقابلہ کرکے معاشی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔پاکستان کے عوام قومی سلامتی کے سلسلے میں گہری تشویش میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ یہ بنیادی اور بھاری ذمے داری صرف پاک فوج پر چھوڑ دی گئی ہے جو اکیلے پاکستان کی سلامتی کو یقینی نہیں بناسکتی۔ اُسے عوام کے مکمل اور لازوال اعتماد کی ضرورت ہے۔ یہ
اعتماد پاکستان کے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہی فراہم کرسکتے ہیںمگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان قومی سلامتی کے بارے میں عوام کو اعتماد میں ہی نہیں لیتے اور وہ صرف ’’اقتدار کی سیاست‘‘ میں مگن رہتے ہیں۔پاکستان دشمن غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں پاک فوج اور عوام کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا ٹارگٹ اب پاک فوج بن چکی ہے۔ ان سنگین حالات میں سول ملٹری تعلقات کو خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اور پاک فوج کے جرنیل دونوں سنجیدہ گفتگو اور مشاورت سے ہی کشیدگی اور تنائو کو ختم کرسکتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024