آخر نواز شریف چاہتے کیا ہیں ؟ وہ کن سیاسی اہداف کے حصول کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں وہ پاکستان کو بد امنی اور بے چینی کی نذر کیوں کرنا چاہتے ہیں اور آخر کیوں وہ اپنے متوالوں کو اپنی آخری ‘‘کال’’کا انتظار کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔ان تمام سوالات کا جواب جنت آشیانی جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل نے اپنے ویڈیو پیغام میں دے دیا ہے وہ کہتے ہیں۔میں محمد عبداللہ حمید گل آپ سے مخاطب ہوں پاکستان کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا میرے والد مجاہد اسلام جنرل حمید گل ہمیشہ لبیک کہتے ہوئے پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیتے تھے میں آج انکے روشن نقوش پر چلتے ہوئے آپ سے مخاطب ہوں اورآپ کویہ بتانا چاہتا ہوں‘‘۔پاکستان پر نواز شریف کے حالیہ الزامات کے نئے سلسلے نے پاکستان کو ہلاکررکھ دیا اور ہمیں ساری دنیا میں ایک دفعہ پھر پورے زور و شور سے دہشت گردوں کے مددگارطور پر پیش جارہاہے ایسے وقت میں جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی deadline ختم ہونے میں صرف چند دن رہ گئے ہیں جس میں بار ثبوت ہماری گردن پر ڈال دیاگیا ہے پاکستان کو ایک دفعہ پھرمشکل سے دوچار کرنے میں نواز شریف نے بڑا اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کیخلاف جاری اس گھناؤنے کھیل کا آغاز 1990کی دہائی میں ہوا تھا جب پاک فوج کیخلاف rouge army والے اشتہارات غیرملکی اخبارات میں شائع کروائے گئے نیویارک ٹائمز آج بھی پاک فوج اورریاست کے خلاف زہراگلتا ہے اس کے بعد پھر کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی جو کبھی قابل قبول نہ ہوسکی۔اسکے بعد امریکی صحافی کم بارکر اپنی کتاب reshuffle Taliban میں لکھتی ہیں کہ نوازشریف نے نہ صرف ان سے محبت کا اظہار کیا بلکہ ان کو اجمل قصاب کے متعلق تمام معلومات دیں اوربعد میں یہ کہا کہ آپ کو آئی فون تحفہ دینا چاہتا ہوں اس سے ہماری آپس کی بات چیت آئی ایس آئی نہیں سن سکے گی آج تک نواز شریف اس کی کوئی تردید نہیں کرسکے۔
ممبئی حملے کے بعد اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو کہاکہ آپ وردی میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے پیش ہوں اور ان کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں۔اس وقت ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم کے سربراہ میرے والد جنرل حمید گل ان کے ساتھی محب وطن پاکستانی ‘ ایکس سروس مین سوسائٹی’ نامی گرامی اخبارنویس ،سیاستدان کھڑے ہوگئے اور حکومت کو یہ اقدام واپس لینے پر مجبور کردیا پھر آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ بنانے کی کوشش کی گئی وہ بھی معاملہ نہیں چلا اوراس کے بعد پھر ہم نے دیکھا میموگیٹ سکینڈل ہوگیا کہایہ گیاکہ امریکی فوج کو اس وقت کی قیادت نے غدار وطن حسین حقانی کے ذریعے خط لکھا اورکہاگیا کہ آئے اورپاکستانی فوج پر حملہ کرے اور آپ نیوکلئیر صلاحیت پاکستان سے لے لیں یہ آج تک کیس چل رہا ہے اسکے پر پیش رفت نہیں ہوپائی۔ اور پھر نوازشریف کی نواسی کی شادی پر وزیراعظم مودی را کے چیف اور 123اہلکار بغیر ویزا پاکستان پہنچ جاتے ہیں یہ وہی وزیراعظم مودی ہے جو چند گھنٹے پہلے افغانستان میں پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرکے آئے تھے اوراس دن قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا کیک نہیں کاٹا گیا، انکے مزار پر حاضری نہیں دی گئی بلکہ اس دن بھارتی وزیراعظم کے ساتھ گلے مل گئے کلبھوشن یادیو پر زبان بند رہی اور اسی انداز میں سجن جندل کی دوستی بھی بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آتی ہے۔ (جس سے لوہے کی کسی کانفرنس میں حسین نواز کی اتفاقاتی ملاقات’ دیکھتے ہی دیکھتے گہری خاندانی دوستی میں بدل جاتی ہے) پھر یہ واقعہ ہوتا ہے وہ جنرل پرویزمشرف ایک این آراو جیسی بھیانک ڈیل کرلیتے ہیں جس کے تحت چوروں اور ڈاکوؤں کو مکمل آزادی دی جاتی ہے کہ وہ ایکا کرکے افواج پاکستان، آئی ایس آئی کیخلاف اور ریاست پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کریں جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔حسین حقانی ،جیلانی اور اعزاز چودھری جیسے سفیروں کو امریکہ میں کھلی چھوٹ دے دی گئی ان کی تمام حرکات کونظرانداز کیاگیا ہمارے اداروں ‘ہماری ریاست اورہماری حکومت نے انہیں کھل کھیلنے کی آزادی دی نتیجتاًانہوں نے کھل کے وہ کردار ادا کیا کہ جو کوئی دشمن نہ کرپاتا پاکستان کے وہ آٹھ طویل سال جس میں امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت خراب ہوگئے۔
ڈان لیکس پر بھی سخت ترین ایکشن کرنے کی بجائے آپ نے ان مجرموں کو معاف کردیا پھر اسی صحافی کو خصوصی دعوت پر ملتان بلوایا گیا پھر ایک دفعہ نواز شریف کا یہ انٹرویو پوری دنیا کے اندر چلوایا گیا۔کڑی سے کڑی ملائیں اورسمجھیں پاکستان کس طرف جارہا ہے اورپھر یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کا مقصد کیا ہے نواز شریف مغربی دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صرف وہی ایک شخص ہیں جوافواج پاکستان کو کمزور کرسکتے ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کرسکتے ہیں کشمیر اور بنیادی معاملات کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔ میں ہی وہ شخص ہوں جونیوکلئیر پروگرام رول بیک کرسکتا ہوں۔یہی وہ نواز شریف تھے جن کی حکومت نے کیمیکل ویپن کنونشن پر خاموشی سے’ قومی مفادات کے برعکس ‘ اسمبلی کوبالائے طاق رکھ کے معاہدہ کرلیا گیا جو آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ہمیں یہ سوچ اور سمجھ لینا چاہئیے کہ اگر ہمارے اداروں اورہماری ریاست نے کمزوری دکھائی تو کمزوروں پر یہ ظالم دنیا ہمیشہ حملہ کرتی ہے۔آج افواج پاکستان کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں کبھی کے پی کے سے کبھی بلوچستان سے اورکبھی سندھ سے ۔یہ لمحہ فکریہ ہے وہ لوگ جو پاکستان کا پرچم اٹھاتے ہیں آج ان کی کوئی پزیرائی نہیں ہوتی بلکہ وہ لوگ جو پاکستان مخالفت میں نعرے لگاتے ہیں ان لوگوں کی شنوائی ہوتی ہے۔ ان کو ہمارا میڈیا بھی دکھاتا ہے انکے ساتھ ہمارے ادارے (بشمول افواج پاکستان ) معاملات طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں دشمن کے عزائم کوسمجھنا چاہئے نواز شریف سے انہوں نے جو حاصل کرنا تھا وہ حاصل کر چکے ہیں اب ملک دشمن بدامنی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرینگے کہ فوج اور عوام کا تصادم کرادیا جائے پاکستان خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہوسکتا جہاں معاشی حالات ایسے ہیں کہ جہاں ڈالر اگلے چند ماہ میں 250 روپے تک لے جایا جائیگا۔دشمن کے چار بڑے واضح اہداف ہیں وہ (ڈی نیوکلرائیز) کرنا چاہتا ہے پاکستان میں تمام دینی قوتیں ہمیشہ دائیں بازو کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں آج وہ بکھری ہوئی ہیں۔ دینی مدارس پر پرویز مشرف نے جس انداز میں چھاپے پڑوائے اس طریقے سے دینی قوتوں کو کمزور کیا گیا توہین رسالت کے معاملے پر باقاعدہ گھناونی سازش کی گئی جس کو پاکستان کے عوام نے یکسر مسترد کردیا۔ ایٹمی پروگرام کے بعد’ سی پیک دشمن کی نگاہ میں خار بن کر کھٹک رہا ہے کیونکہ چین اور اورپاکستان کی ترقی ‘ اسرائیل کو ہندوستان کو اورامریکہ کو بالکل نہیں بھارہی، اس کیلئے وہ ہر حد اور ہر سطح پر جانے کیلئے تیار ہیں۔ اس لئے آج ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ ہمیں وہ غلط پالیسیاں جو ہم نے کبھی اختیار کی تھیں آج ہمیں ان سے باہر نکلنا پڑے گا اورآج ہمیں پاکستان کو متحدکرناپڑیگا منظم کرنا پڑیگا متحرک کرنا پڑیگا اوران قوتوں کیخلاف مزاحمت کرنی پڑیگی جو پاکستان کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔ آئیں پاکستان کے جھنڈے تلے قوم ایک بن جائیں‘‘ …؎
ایک ہوں مسلم’ حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024