اس گئے گزرے دور میں جب ہر شخص مادہ پرستی کی زد میں انسانی اقدار سے ناتے توڑ رہا ہے یا اپنے اس ناتا کو اتنا کمزور کر چکا ہے کہ اسے دوسروں پر کیا خود پر اعتبار نہیں رہا۔ایسی ایسی مثالیں سامنے آ جاتی ہیں کہ ایک بار پھر اعتماد اور اعتبار فخر سے سر اٹھا کر مایوسی اور منتشر ذہنی انسانوں کو اتنا جھنجھوڑتے ہیں کہ وہ مایوسی اور ناامیدی یا بداعتمادی اور بے یقینی پر لعنت بھیجنے اور امید اور یقین کو اپنانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ منفی رویوں کے پنپنے، پھیلنے پھولنے اور قبولیت عام حاصل کرنے کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کو پھیلانے میں وہ طبقہ بھی شریک جرم ہو جاتا ہے جو ان سے نفرت بھی کرتا ہے اور انکے خلاف بظاہر علم جہاد بھی بلند کئے ہوئے ہے۔ ہر منفی بات کو فوراً قبول کر لینے کی وبا کا شاید علاج اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اس وباء کو لاعلاج بنانے میں اس عمل کا ہے جو اچھائی یا نیکی کے نام پر کیا جاتا ہے اور اسکی اصلیت کو قبول کرنے کی بجائے اس کی تصحیح و تشریح میں شک و شبہات اور کوئی خفیہ مقصد تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی ایک تو نیکی کر دریا میں ڈال والا طبقہ ہے جو ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے کو خبر نہ کرنیوالے حکم پر قائم ہے اس طرح آپ کے ارد گرد ہونیوالی ایسی نیکیاں آپکے علم میں ہی نہیں آتیں، دوسرا طبقہ اگر دیانتداری سے اپنی نیکی کو ظاہر کرتا ہے تاکہ دوسروں کو بھی اسکی ترغیب ملے تو اس پر ریا کاری شعبدہ بازی یا اپنی پا رسائی ظاہر کرنے کی تہمتیں آسانی سے لگائی جا سکتی ہیں اور عملاً نیکی کے عمل کو روکنے یا محدود کرنے میں ایسا کرنیوالے اپنا حصہ ڈالتے ہیں،برائی کو من و عن قبول کر لینے اور اسے آگے پھیلانے والے نیکی یا اچھائی کو نہ خود من و عن قبول کرتے ہیں نہ ہی اسے آگے پھیلانے میں انسانی شرف یا ذمہ داری کے معانی و مفہوم اور فوائد سے آگاہ ہیں۔ آسانی سے جواز ڈھونڈ لیتے ہیں کہ ہمیں کیا پتہ بات درست ہے یا نہیں ہم نے کونسا اپنی آنکھوں سے کسی کو کسی کی مدد کرتے دیکھا ہے اور پھر کون کس نیت سے کرتا ہے اس سے کون سا مفاد اٹھاتا ہے اسکی تو بالکل ہی خبر نہیں۔ منفی بات سننے اور پھیلانے میں یہ معیار سامنے نہیں رکھا جاتا بلکہ اسے انتہائی مستند سمجھ کر آگے بتایا جاتا ہے۔ ایسے ہی وطن عزیز کے ہر شعبہ میں نقص نکالنے اور پاکستان کی اندوہناک صورت پیش کرنے والے جعلی اعداد و شمار کا سہارا لے کر ایک طرف اپنے پڑھا لکھا بلکہ اس سے بڑھ کر عالم فاضل ہونے کا ابلاغ کراتے ہیں اور لوگوں سے اس کا سرٹیفکیٹ بھی وصول کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک ایسے ہی بقراط پاکستان میں مسجدوں، مدرسوں، حاجیوں، نمازیوں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں، خرچ کی جانیوالی رقم سب کے اعداد وشمار بنا کر مزید یہ بتا رہے تھے کہ پھر بھی پاکستان کرپشن کے حوالے سے دنیا میں کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔ چند ممالک ہی اس سے زیادہ کرپٹ ہیں، دھوکہ د ہی ، لوٹ مار، اخلاقی برائیاں ٹیکس چوری اور کون سا جرم ہے جو پاکستانی نہیں کرتے وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہ تھے کہ اگر نیکی کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کے بعد جرائم کی یہ صورتحال ہے تو انکی عدم موجودگی میں تو پھر اندھیر نگری چوپٹ راج ولا معاملہ ہو جائیگا وہ یہ بھی ماننے کو تیار نہ تھے کہ انکے پیش کردہ اعداد و شمار فرضی یا جعلی ہیں کسی پروپیگنڈے کی زد میں آکر اپنے بارے میں یہ تاثر ملک اور یہاں کے عوام کی توہین کرکے محض ایک تکذیب کی بنیاد پر قائم کرنے والے کی بات کوئی مانے یا نہ مانے اس کذب بیانی سے مایوسی ضرور پھیلتی ہے وہ اپنے ہی ارد گرد کی بعض ایسی مثالوں کو سامنے لے آتے ہیں جن کو نہ ماننے والے بالعموم کسی محفل میں تنہا ہی رہ جاتے ہیں حیرت ہے جس ملک میں سرکاری طور پر کی جانے والی مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جاتا وہاں مسجدوں اور مدرسوں کی تعداد کو جو انتہائی مبالغہ کی شکل میں پیش کی جاتی ہے اورپھر ستم یہ کہ سے آسانی سے مان لیا جاتا ہے نیک لوگوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتے ہوئے پورے ملک میں چند لوگ بھی ان کی طرف سے استثنٰی حاصل نہیں کر سکتے۔
یہ بھی عام مشاہدہ کی بات ہے کہ فوج کے بارے میں واجبی سی اطلاعات بھی نہ رکھنے والا فوج پر نکتہ چینی کرنے میں بہت بلند آہنگ نظر آتا ہے۔ قانون کی سے بھی واقفیت نہ رکھنے والا اور قانون شکنی کو بہادری سمجھنے والا عدلیہ اور اسکے ارکان پر تنقید میں بے لگام ہوتا ہے۔ خود دو نمبری سے زندگی گزارنے والا محض اپنی دو نمبری چھپانے کیلئے دوسروں کی برائیوں میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اپنی خواہشات اور آرزئوں کو خبر ہی بنا کر بلکہ بہت ہی مستند خبروں کی شکل میں پیش کرکے اپنی جہالت کو چھپانے اور اپنے ایسے دوسرے جہلا بظاہر کامیاب ہو جانے والوں کا وجود ہر محفل ہر مجلس ہر دفتر ہر گلی محلے میں اپنی شناخت کروا لیتا ہے۔ اس تمام کے باوجود پاکستان کے وسائل بھی بڑھے ہیں ترقی بھی ہوئی ہے اور ہر نئے لوٹنے والے کو جی بھر کر قومی دولت لوٹنے میں کبھی یہ شکوہ نہیں کرنا پڑا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہمیں قومی دولت لوٹنے کے اتنے وسیع مواقع نہیں ملے جتنے ہم سے پہلے حکومت کرنے والوں کو ملے تھے۔ لوٹ مار میں جدت اور منفرد انداز سے پیٹ بھرنے والوں کی ہل من مزید کی گردان سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ انکے لوٹ مار کے اہداف پورے نہیں ہوتے۔ وہ طے شدہ ہدف حاصل کر لینے کے بعد نئے بظاہر حاصل نہ ہونیوالے اہداف باندھ لیتے ہیں اور انہیں حاصل کرکے پھر نئے اہداف اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لوٹنے والے لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں تک کا سفر مکمل کرکے اپنے حواریوں کو بھی تحفظ دینے کی ضمانت پر اس گروہ کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ انہیں ماڈرن زبان میں فرنٹ مین کا ٹائٹل دے دیتے ہیں اور پھر فرنٹ مین اپنی چابک دستی اور فن شناسی سے سالوں کا سفر جب دنوں میں طے کرلیتا ہے تو اپنے لئے کسی اور کو فرنٹ مین رکھ لیتا ہے۔ اب لوٹ مار کا یہ ’’منحوس چکر‘‘ ہر کسی کو نظر آتا ہے اسے ختم کرنے کیلئے کوئی خاک کوشش کریگا اس میں شامل ہونے یا اس کا حصہ بننے والوں کی تعداد ایسے لوگوں کو بہت زیادہ نظر آئیگی بعض سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے ممکن ہے پیچھے رہیں ۔ البتہ وہ تھوڑی سی چھوٹ دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ ایسی خود ساختہ اندوہناک صورتحال اور بحث مباحثے کا لایعنی گفتگو اور جاہلانہ دلیلوں کی قبولیت اور استرداد کی شکل میں ہر گز ہرگز ملک و ملت یا افراد کیلئے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں کرتا۔
مگر زندہ قومیں اپنے خیر خواہوں اور بدخواہوں دونوں کی ’’خدمات‘‘ کو انکے اقتدار سے ہٹنے یا دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یاد رکھتی ہیں مجھے یہاں دو ایسی ہی کاوشوں کا ذکر کرنا ہے جن میں سے ایک میں عراق کی جنگ کے دوران مرنے والے ان 670امریکی فوجیوں کے چہروں کو اس طرح جوڑا گیا ہے کہ وہ جنگ کو شروع کرنے سے لیکر تباہی و بربادی میں اضافہ کرنے اور انتہائی واہیات الزامات لگا کر انسانیت کے خون کے دریا بہانے والے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی تصویر بن جاتی ہے۔670 امریکی سپاہیوں کا قاتل انکے چہروں کی تصویر کے جوڑے جانے کے بعد اپنا بھیانک چہرہ چھپا نہیں سکتا اور اس بدبخت کے چہرے پر اپنے ہی فوجیوں کے لہو کے چھینٹے نظر آتے ہیں۔
دوسری فنکاری اور کاریگری میں سائوتھ افریقہ کے ایک بڑے شہر پیٹرمیرٹس کے قریب اس جگہ پر نصب لوہے کے کھمبوں میں پوشیدہ ہے جہاں نیلسن مینڈیلا ایک درخت کے نیچے انگریزوں سے چھپ کر پناہ لئے ہوئے تھا۔ عظیم رہنما کو انگریزوں نے پکڑ تو لیا مگر اسے قومی یادگارقرار دے کر ان کھمبوں کو جو ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر ایستادہ کر کے بنا دیا گیا کسی کے اوپر بڑھے ہوئے لوہے کے تیز اور نوکیلے حصے اس طرح ہیں جیسے کسی دوسرے میں انہیں فکس کرنا ہے۔ یہ دندان رکھنے والے کئی کھمبے ہیں جونہی آپ ان سے پیچھے ہٹتے جائیں یہ بغیر کسی حرکت یا اضافی کوشش کے نیلسن منڈیلا کی تصویر بن جاتے ہیں۔ ایک ہیرو کی تصویر اور دوسری بے گناہ انسانوں پر ظلم ڈھانے والے بش کی تصویر انسانوں کیلئے انکی خدمات اور ظلم دونوں کی تاریخ رقم کر چکی ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024