دہشت گرد ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ ملک کو ایک مرتبہ پھر امن دشمنوں کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں اس وقت یہ بحث نہیں ہونی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے، کس کی وجہ سے انہیں دوبارہ موقع ملا ہے۔ کون لوگ تھے جنہوں نے شرپسند عناصر کے ساتھ نرمی برتی یا پھر غلط فیصلے کئے اس وقت سب سے اہم ملک کو ان دہشتگردوں سے بچانا ہے۔ دہشتگردی کی اس نئی لہر کی وجہ سے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کے محافظوں یعنی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پولیس کو نشانہ بنایا گیا اور اب ایک مرتبہ پھر افواج پاکستان کے جوانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے بہادر، غیور جوان ملک کی حفاظت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ دشمن نے ایک مرتبہ پھر ہمارے اندر سے حملوں کی حکمت عملی بنائی ہے ۔ ہمارے بہادر جوان ایک مرتبہ پھر دشمن کی سازشوں ، منصوبوں اور ان حملوں کو ناکام بنائیں گے ۔ امن دشمنوں کیساتھ کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے۔گذرے چند دنوں میں پاکستان کے محافظوں پر ہونے والے حملوں کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے اور ان کی مرمت میں بھی کوئی سستی نہیں ہونی چاہیے۔جنوبی وزیرستان کے علاقے انگوراڈا میں شدید فائرنگ کے تبادلے میں آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی آپریشن کو لیڈ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ انگور اڈا کے مقام پر دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں سات زخمی سیکیورٹی اہلکاروں میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔ بارہ اکتوبر انیس سو پچانوے کو فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کرنے والے بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی شہید نے اے پی ایس حملے میں ملوث دہشتگردوں کے خاتمہ میں کردار ادا کیا ۔چند روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کھوٹی کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں تین جوان شہید ہوئے تھے۔ شہدا میں حولدار محمد اظہر اقبال، نائیک محمد اسد اور سپاہی محمد عیسیٰ شامل ہیں۔ ہلاک دہشت گردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے جبکہ علاقے میں ممکنہ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے سرچ آپریشن کیا گیا اور دہشت گردوں کے فرار کے تمام راستے مسدود کئے گئے۔ پاک فوج دہشتگردی کی لعنت ختم کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ جوانوں کی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ قوم اپنے شہدا کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے اور ان کیساتھ کھڑی ہے، قوم اپنے شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیگی۔ قوم کو اپنے دفاعی اداروں اور ملک و قوم کی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے جوانوں پر فخر ہے۔ دہشت گرد صرف حملے ہی نہیں کر رہے بلکہ وہ معصوم اور بھولے بھالے لوگوں کو بھٹکا بھی رہے ہیں۔کاونٹر ٹررزم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان اور حساس اداروں کو پچھلے کچھ عرصے سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ کالعدم دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے خواتین اور بچوں کو ورغلا رہی ہیں۔اس مقصدکیلئے نہ صرف ان کی ذہن سازی کی جا رہی تھی بلکہ ان کو دیگر مالی معاونت اور تنظیمی سہولت کاری کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ اطلاعات کی بنیاد پر سی ٹی ڈی بلوچستان نے اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے مشکوک لوگوں کی نگرانی شروع کر دی۔ کوئٹہ میں ایسے ہی ایک گروہ بارے علم ہوا جس کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف سے تھا۔ اس گروہ کا لیڈر یوسف خان تھا جو بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا قریبی ساتھی تھا۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر سترہ فروری کو ایک خاتون ماحل بلوچ کو خودکش جیکٹ کیساتھ گرفتار کیا گیا۔ماحل بلوچ نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اس کا شوہر بیبگر دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف کا ممبر ہے۔ ماحل بلوچ گاؤں گیاب، تل مند، ضلع کیچ میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئی۔ ماحل کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جہاں ریاست مخالف بیانیہ عام طور پر زیر بحث آتا تھا۔ 2013 میں اس کی شادی ایک ایسے خاندان میں ہوئی جس کے عسکریت پسند گروپ BLF کیساتھ گہرے تعلقات تھے جو مختلف دہشت گردی کی سرگرمیوں اور نوجوانوں کی بغاوت میں سرگرم رہا ہے۔ ایک بار جب اس کے والدین کو اس کے شوہر کے عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اسے طلاق کیلئے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ حمل کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکی۔ کراچی میں رہائش کے دوران ماحل بلوچ سے بی ایل ایف کے لوگوں نے رابطہ کیا اور تنظیم میں شامل ہونے کیلئے ورغلایا اور اسی سلسلے میں اس کی ذہن سازی کرتے رہے۔ابتدائی طور پر ماحل کا ذمہ خواتین کی ذہن سازی اور مختلف بی ایل ایف کی ریلیوں میں شرکت کرنا تھا۔ بی ایل ایف ان کے گھر میں مختلف ذرائع سے اخراجات بھجوا رہی تھی جس میں بینک اکاؤنٹس، موبائل ٹرانسفر وغیرہ شامل ہیں۔ پہلے ماحل بلوچ کو اسکی نند بی بی گل کی جانب سے پیسے ملتے رہے اور بعد میں دوسری نند پری گل تمام پیسوں کے معاملات دیکھتی رہی۔ ماحل بلوچ نے بتایا کہ اس کا سسرال اسے اس کی بچیوں کی وجہ سے بلیک میل کرتا رہا کہ اگر اس نے تنظیمی معاملات کا کسی سے بھی ذکر کیا تو اس کی دونوں بیٹیاں اس سے چھین لی جائیں گی۔ خود کش جیکٹ کے متعلق ماحل بلوچ نے بتایا کہ بی ایل ایف کے ایک کمانڈر شربت خان نے اس کو گرفتاری سے تقریبا ایک ہفتہ پہلے یہ جیکٹ بھجوائی جس کو اس نے ایک ہفتے تک اپنے گھر میں چھپا کر رکھا۔ شربت خان نے اس کو بتایا تھا کہ یہ جیکیٹ کوئٹہ میں کسی اہم حملے کیلئے استعمال ہونی ہے اور گرفتاری کے وقت یہ جیکٹ ایک اور شخص کو دینے کیلئے وہ گھر سے نکلی تھی۔ماحل بلوچ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے متعلق بھی آگاہ کیا اور اس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق سی ٹی ڈی کی جانب سے مزید کارروائی کی جارہی ہے تاکہ دہشتگردی میں ملوث لوگوں اور تنظیموں کے متعلق ٹھوس شواہد اکٹھے کئے جا سکیں۔ بلوچ معاشرے میں خواتین کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے جہاں وہ قبائل کے اختلافات ختم کرانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ صرف تعلیم کے ذریعے بلوچ خواتین کو ان کی عظیم تاریخ، اقدار اور کلچر سے شناساں کیا جا سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بلوچ خواتین کی
تعلیم کیلئے خصوصی مراعات فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ پولیس، فوج، عدلیہ، سول سروسز اور سیاست میں نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ غلط خبروں اور تعلیمی اداروں میں غلط افراد کی باتیں سننے کی وجہ سے بلوچ خواتین کی منفی تصویر پیش کی جارہی ہے، جس کو روکنا ضروری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے چادر اور چاردیواری کا خصوصی طور پر خیال رکھتے ہیں اس لئے شرپسندوں نے اپنی مذموم کارروائیوں میں خواتین کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ شرپسند عناصر سادہ لوح لوگوں کے ساتھ ساتھ کم عمر بچوں کو بھی استعمال کر رہے ہیں اور اس کی تازہ مثال ماحل بلوچ کی گرفتاری کے بعد ایک چھوٹی بچی کے بیان کی صورت میں سامنے آئی۔ماحل بلوچ، شاری بلوچ، کریمہ بلوچ اور نائلہ قادری جیسی خواتین کسی صورت بلوچ خواتین کی رول ماڈل نہیں ہیں۔ بلوچستان میں شر پسند عناصر خواتین کی غربت کا صریحاً غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ خواتین نہ زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں قانونی پیچیدگیوں کا علم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیواؤں کو برین واشنگ کے ذریعے بھی ریاست کیخلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔شیری بلوچ اور نور جہاں بلوچ کے بعد اب ماحل بلوچ کا دہشت گردی میں ملوث ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ شرپسندوں نے خواتین کا استحصال اس لئے شروع کیا کہ بلوچ عوام ان شرپسندوں کے جھانسے میں نہیں آ رہے تھے۔ خواتین کو شرپسندی کیلئے اکسانا اور استعمال کرنا نہ صرف اسلامی روایات کیخلاف ہے بلکہ بلوچ روایات کے بھی خلاف ہے۔بلوچستان میں اکثر چیک پوسٹوں پر خواتین کی چینکنگ نہیں کی جاتی تھی لیکن شرپسندوں کی جانب سے خواتین کے استحصال کی وجہ سے چیک پوسٹوں پر امن پسند اور پردہ دار خواتین کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔کسی قسم کے تشدد پسند نظریے کی اسلام بھی حمایت نہیں کرتا اور بلوچ روایات بھی شدت پسندی اور نفرت انگیزی رد کرتی ہیں۔موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کو بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ بلوچستان کی ترقی ہی مضبوط اور محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے۔ وہاں ترقیاتی منصوبے، تعلیم کو عام کرنا اور خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے سے ہی ہم دہشتگردوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔