آج سے 73 برس قبل 14اگست 1947ء کو مسلمانان برصغیر کو آزادی کی دولت نصیب ہوئی تھی۔ آزادوطن حاصل کرنے کیلئے مسلمانان برصغیر نے جان ومال کی لازوال قربانیاں دیں۔ عزت مآب خواتین کی عصمتیں لٹ گئیں ،سہاگ اجڑ گئے، مائوں سے لپٹے ننھے معصوم بچے نوکِ سناں پر اچھالے گئے، جوانوں کے سینے برچھیوں سے چھلنی کیے گئے، عزت و وقار کے حامل بزرگوں کو بھی تہہ تیغ کر دیا گیا، مال و متاع چھن گیا، گھر ویران ہو گئے، بستیاں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ وحشت و بر بریت کا ایسا خونی کھیل کھیلا گیا کہ کوئی بھی خاندان محفو ظ نہ رہا ۔کو ن سا ایسا ظلم و ستم ہے جو انگریزوں، ہندئووں اور سکھوں کی جانب سے برصغیر کے مسلمانوں پر نہ ڈھا یا گیا ہو مگر آفرین ہے آزادی کے ان متوالوں پر کہ ان کے پایہ استقلال میں ذرہ بھی لغزش نہ آئی بلاشبہ آگ و خون کے اس دریا کو انھوں نے ڈوب کر پار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں اور یہ سب ہمارے اسلاف کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت ، تحریکِ آزادی کے اکابرین اور قائد کے جانثار ساتھیوں کی انتھک محنت اور بر صغیر کے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا۔
بلا شبہ مقامِ آزادی سے ہمکنار ہونے تک برصغیر کے مسلمانوں کو دس لاکھ فرزندانِ توحید کی قربانی دینا پڑی اور پچاس ہزار عورتوں کی عصمتیں راہِ آزادی میں قربان ہوئیں۔ مگر پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں 23مارچ 1940ء کا دن ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز جو قرارداد حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں منظور ہوئی تھی۔ وہ قرارداد پاکستان ٹھہری۔ اس قرارداد کی منظوری سے ہندوستان کے مسلمانوں کی منزل کا تعین ہو گیا جبکہ حکمران فرنگی سامراج کے ایوان لرز اٹھے اور اس کے ساتھ ہی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی ہندو کانگریس کی قیادت تلملا اٹھی۔ ہندوئوں کے خود ساختہ مہاتما ‘ موہن داس کرم چند گاندھی اور دوسرے کانگریسی رہنمائوں نے قرارداد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حضرت قائداعظمؒ کی ذاتِ گرامی پر تنقید کا بازار گرم کر دیا۔ ہندوستان بھر میں پریس پر ہندوئوں کا غلبہ تھا۔ زیادہ تر اخبارات کے مالکان ہندو اور سکھ تھے۔ مسلمانوں کے اخبارات بھی تھے مگر ان کے تعداد اور وسائل مخالف قوم کے اخبارات سے کم تھے۔ اس وقت کی حکومتی اشیرباد بھی قیام پاکستان کے مطالبہ کی مخالفت کرنے والے اخبارات کو حاصل تھی اسی طرح ہندو اخبارات نے مطالبۂ پاکستان اور حضرت قائداعظمؒ کے خلاف ’’میڈیا وار ‘‘شروع کر دی تھی۔
ایسے پر آشوب ماحول میں حضرت قائداعظمؒ کی نگاہ دوربین نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر جناب حمید نظامی کا انتخاب کیا اور انہیں اسلامیان ہند کے مؤقف کی ترجمانی کے لیے اردو اخبار کا اجراء کرنے کی ہدایت کی۔ اسی ہدایت کی روشنی میں جناب حمید نظامی نے اپنے چند ساتھیوں کے تعاون سے نوائے وقت کا اجراء کیا اور اس کا پہلا شمارہ 23مارچ 1940ء کے اسی تاریخی دن شائع ہوا جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ حالات اور واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے جس آزاد وطن کا خاکہ پیش کیا تھا اور حضرت قائداعظمؒ نے جس وطن کے خاکے میں رنگ بھر دئیے صحافتی محاذ پر اقبالؒ و قائداعظمؒ کی نظریاتی مملکت کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف نوائے وقت سرگرم عمل ہو گیا۔ پھر اس محاذ پر اپنوں اور غیروں کے خلاف نوائے وقت نے جس دلیری‘ جرأت اور بہادری سے جنگ لڑی تحریکِ پاکستان کی عہد آفریں تاریخ کے اوراق اس سے ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ اگر یوں کہا جائے کہ نوائے وقت کا اجراء مسلمانانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ اور آزاد وطن کا پیش خیمہ بن گیا تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔ قرارداد پاکستان کے ذریعے اسلامیان برصغیر نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب نہ تو ہندوئوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں انگریزی اقتدار اور بالادستی قبول ہے۔ وہ علامہ اقبالؒ کے خطبۂ الٰہ آباد کے مطابق ایک جدید‘ اسلامی‘ جمہوری‘ پارلیمانی‘ فلاحی ریاست قائم کرنے کے آرزو مند تھے جہاں مسلمان اسلامی تعلیمات اور اقدار کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ یہ اقوام عالم کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے محض عوام کے تعاون سے ایک گولی چلائے بعیر صرف سات سال کی قلیل مدت میں جمہوری جدوجہد کے ذریعے ایک الگ ملک حاصل کر لیا اور انگریز کی جابرانہ حکومت کے علاوہ ہندوئوں کی اکثریت‘ دولت اور سماجی غلبہ سب شکست کھا گئے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نوائے وقت نے قیام پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور مسلمانانِ برصغیر کی ترجمانی کا صحیح معنوں میں حق ادا کر دیا۔
نوائے وقت صحیح معنوں میں حضرت قائداعظمؒ کے مؤقف کی عکاسی کرنے میں وقت کے تمام مسلم اخبارات کا سرخیل ٹھہرا۔ قیامِ پاکستان کے بعد حمید نظامی کی ادارت میں روزنامہ نوائے وقت ملک میں قانون کی حکمرانی‘ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے لگا۔ حمید نظامی حصول وطن کی جدوجہد میں پیش پیش رہے تھے۔ انہوں نے نوائے وقت کے ذریعے ملک میں علامہ محمد اقبالؒ و قائداعظمؒ کی تعلیمات اورسیاسی نظریات کے مطابق ملکی نظام استوار کرنے کے لیے اپنے قلم کی تمام تر توانائیاں صرف کرنی شروع کر دیں۔ (جاری)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024