میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں میٹنگ کے بعد نیچے لابی میں آیا تو ایک نوجوان سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ تھا۔اس نے چپکے سے میری طرف ایک خوبصورت لفافہ بڑھایا۔ میںنے سوچا اس میںکوئی پرفیوم ہو گا۔ یہ نوجوان بیرون ملک آتا جاتا رہتا ہے۔ میںنے گھر آکر وہ لفافہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اگلے دن دوپہر کو سوچا کہ دیکھوں توا س میں ہے کیامگر لفافہ خالی تھا۔ اس دوران میں ایک صفائی والی ہی گھر آئی تھی۔ لگتا ہے ا س نے ہاتھ کی صفائی دکھا دی۔ میںنے فون کر کے تحفہ دینے والے سے پوچھا کہ آپ نے مجھ پر کیا عنایت کی تھی۔بولے ایک جدید ماڈل کا ٹیب تھا، کوریا گیا وہاں سوچا کہ آپ کے کام آئے گا۔ مجھے یہ ٹیب کھو جانے کا بے حد افسوس ہوا۔
جس نوجوان نے ٹیب دیا تھاا س سے راہ و رسم بڑھی۔ وہ میرے عزیز بھی ہیں اور ایک انوکھا کام کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو اعلی تعلیم کے لئے بیرونی یونیورسٹیوں میںداخلہ دلواتے ہیں اور انکے لئے اسکالر شپ بھی تلاش کرتے ہیں ۔ پچھلے دس برسوں میں ہزاروںنوجوان ان کی مدد سے اعلی تعلیم سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ کئی ایک تو پی ایچ ڈی کر کے آئے اور پاکستان میں اعلی مناصب پر فائز ہوئے۔ اس نوجوان کانام تنویر نذیر ہے۔ وہ لارنس روڈ کے اس حصے پر جسے پاک فضائیہ کے ہیرو سیسل چودھری کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ، ایک دفتر میںکسی انگریز کے ساتھ کام کرتا تھا، بعد میں اس نے یہ دفتر اپنے انگریز مالک سے خرید لیاا ور وہیں نوجوانوں کو اعلی تعلیم کے لئے گائیڈنس دینے کا فریضہ سنبھال لیا۔
چند ہفتے قبل وہ اسلام آباد گیا۔ اس نے وفاقی وزیر تعلیم سے وقت مقرر کر کے ملاقات کی ا ور پندرہ منٹ ون ٹو ون گفتگو کی درخواست کی۔ یہ پندرہ منٹ تو اسے مل گئے لیکن دس منٹ وزیر صاحب فون پر کسی سے بات کرتے رہے اور باقی کے پانچ منٹوںمیں تنویر نذیر نے وزیر صاحب کے سامنے تجویز رکھی کہ بیرونی یونیورسٹیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔ وزیر صاحب نے کہا کہ ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو مدعو تو کرر ہے ہیں لیکن تعلیم کے میدان میں ہمیں کسی بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں۔چلئے یہ حکومتی پالیسی ہو گی۔ نوجوان مایوس ہو کر واپس چلاا ٓیا اور میرے سامنے حال دل رکھا۔
میرے ذہن میں ان دنوں ایک ہی شور بلند ہورہا ہے کہ نواز شریف کے بدن کی گاڑی دھواں دے رہی ہے۔ اس کے اسپئر پارٹس لندن سے ملیں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ چالیس برس تک حکومت کرنیو الے نے ملک میں ڈھنگ کا ایک بھی ہسپتال نہیںبنایا جہاںموصوف اپنا علاج کرا سکیں۔ حتی کہ ان کے دو خاندانی ہسپتال بھی ان کے علاج کے قابل نہیں ہیں۔ یہ ہے تو طعنہ زنی مگر بات بڑی حد تک درست ہے۔ ہمارے دوست علامہ احسان الہی ظہیر ایک دھماکے میںزخمی ہوئے۔ انہیں میو ہسپتال لے جایا گیا۔ یہ ملک کا میگا ہسپتال ہے مگر علامہ صاحب کی ٹانگ کا زخم خراب ہوتا چلا گیاا ور انہیں سعودی عرب لے جایا گیا ۔ وہاں بھی ان کی جان نہ بچائی جا سکی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب میں بھی کوئی ڈھنگ کاہسپتال نہیں ہے۔ہمارے بعض مریض بھارت سرجری کے لئے جاتے ہیں،کچھ سنگاپور کا رخ کرتے ہیں اور ایک نواز شریف پر موقوف نہیں ہما شما بھی لندن کا رخ کرتے ہیں۔ مخدوم خلیق الزماں لند ن کے ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوئے۔
میں علاج معالجے کا جھگڑا سیاست دانوں پر چھوڑتا ہوںمگر مجھے کوئی بتائے کہ اس ملک میںکوئی ایک معیاری یونیورسٹی کیوں نہیں ہے ۔دنیا کی یونیورسٹیوں کی رینکنک اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ہمار ی کسی یونیورسٹی کا نام ان میں شامل نہیں۔ اس ملک میں معیاری تعلیمی ادارہ اسلئے نہیں کہ یہاں تعلیم کو کاروبارسمجھ لیا گیا ہے۔ ہیرو ئن فروخت کر لو تو وہی کمائی ہے، تعلیمی اداروں کا جال بچھا دو تو وہی کمائی ہے۔ مگر ان میں تعلیم نام کی شے نہیں۔ میراپوتا ایک نام نہاد اعلیٰ سکول میں پڑھتا ہے ، اسکے ا ردو کے استاد کااصرار ہے کہ آنحضرت کو آن حضرت پڑھو۔رٹا لگا کر ننانوے فی صد نمبر دلوائے جاتے ہیں۔ انگریزی اسکولوں میں انگریزی بھی ٹھیک طریقے سے نہیں پڑھائی جاتی مگر ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی بولنے والوں کو نوکریاں فوری مل جاتی ہیں اور ٹاٹ اسکول والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔تنویر کہتے ہیں کہ اس ملک کے سیاستدانوں، بیورو کریٹو ں۔ صنعتکاروں اور دیگر اداروں کے افسروں کے بچے برطانیہ اور امریکہ میں ایم بی اے کرتے ہیں لا کی ڈگری لیتے ہیں۔ ایک زمانے میںاقبال ا ور قائد اعظم تعلیم کے لئے برطانیہ گئے تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ ہمارے پاس اسلامیہ کالج اور ایم اے او کالج سے کوئی اچھا تعلیمی ادارہ نہ تھا مگر اب بہتر برس گزر گئے۔ ہماری ریاست نے تعلیم کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ ایران کے بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم نظام الملک طوسی سے کہا کہ سلطنت کی حفاظت کے لئے قلعے تعمیر کرو ،ا س نے تین برس کی مہلت مانگی، تین برس بعد درباریوںنے بادشاہ کے کان بھرے کہ وزیر اعظم نے ایک بھی قلعہ نہیںبنایا۔ بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم سے کہا کہ مجھے قلعے دکھائو جن کی تعمیر کا میںنے تمہیں حکم دیا تھا۔ وزیر اعظم نے بادشاہ کی انگلی پکڑی۔ اسے ملک کے کونے کونے میں لے گیا اور تعلیمی اداروں کاجال دکھا کر کہا کہ یہاں سے وہ نسل نکلے گی جو اس ملک کی حفاظت کو یقینی بنائے گی مگر آج ہم اپنے ملک کے ہزاروں تعلیمی اداروں پر تالے لگا رہے ہیں ۔صرف اسلئے کہ ہماری سکیورٹی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ یہ اسکول اور مدرسے نہیں ہوں گے تو وقت آنے پر کون ا س ملک کی حفاظت کے لئے جان ہتھیلی پر رکھے گا۔ چلئے مدرسے بند کر دیجیئے مگر ان کی جگہ ایم آئی ٹی، برکلے ،کیمبرج، آکسفورڈ ، ایڈن برا اور بوسٹن کے معیار کے تعلیمی ادارے کھڑے کیجئے۔تنویرنذیر نے خون کے آنسو روتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوان اعلی تعلیم کا خواب پورا کرنے کے لئے چین جاتے ہیں مگر دنیا کی یونیورسٹیوں میں ساٹھ فی صد بچے چین سے تعلق رکھتے ہیں اگر چین میں معیاری تعلیم ہوتی تو انہیں قیمتی زر مبالہ خرچنے کی کیا ضرورت تھی۔
تنویر نذیر نے پھر سوال کیا کہ سی پیک کے تحت دیوہیکل منصوبے بن رہے ہیں مگر کیا ایک بھی یونیورسٹی بن رہی ہے۔ نہیںبن رہی توکیوںنہیں بن رہی ۔ اس کی طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں۔ ایک بارمیں نے حسن نثار سے کہا کہ آیئے مل کر ایک تھنک ٹینک بناتے ہیں، اس نے کہا ایک مقصد کی خاطر میں تمہارے ساتھ شامل ہونے کو تیار ہوں کہ ہم اپنی حکومت پر دبائو بڑھائیں کہ وہ تعلیم کا بجٹ بڑھائے۔مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ بجٹ ضرور بڑھتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب۔ اسپیکر پنجاب ۔ آئی جی پولیس پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کی تنخواہوں کے لئے۔ اس پر خود وفاقی حکومت بھی سیخ پا ہے وزیر اعظم بھی اسے شرمناک کہتے ہیں۔ مگر اس ملک میں کلہ فنڈ کی ایک روایت جنرل ضیا ڈال گئے ہیں۔ وہی کلہ فنڈ بڑھے گا، ارکان ا سمبلی کے لئے کھابے کاانتظام ہوگا۔ بھاڑ میں جائے تعلیم کا شعبہ ،ا سکی طرف کون توجہ کرے گا۔
تنویر نذیرنے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کوفون کیااور ان سے یگانگت اور یک جہتی کا اظہار کیا مگر وزیر اعظم اس طرف بھی توجہ کریں کہ نیوزی لینڈ کا سفارت خانہ پاکستان میںکھلوائیں۔ وہاں ہمارے نوجوان اعلی تعلیم کے لئے جاتے ہیں تو انہیں ویزے کے حصول میںمشکلات پیش آتی ہیں۔اس ویزے کے لئے آن لائن درخواست دینا پڑتی ہے اور دوبئی میں یہ ویزہ پراسیس ہوتا ہے۔ اس چکر میں پیسہ ا ور وقت دونوں ضائع ہوتے ہیں۔تنویر نذیر کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ وہ بیرونی یونیورسٹیوں سے رابطے کے لئے ملکوں ملکوں پھرتا ہے، امریکہ ، سوئزر لینڈ اور جاپان تک گھومتا ہے۔ اور اس ملک کے ہونہار نوجوانوں کو وظائف پر بیرونی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس نوجوان کی باتیں سننے کی ضرورت ہے۔ اور ان پر کان دھرنے کی بھی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024