حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ خاندان نجار کے رئیس تھے، جد رسول حضرت عبدالمطلب کی والدہ سلمہ بنت عمرو، رشتہ میں حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت گار خصوصی حضرت انس بن مالک آپ کے سگے بھتیجے ہیں۔ انہی کے نام پر آپ کا نام انس رکھا گیا،کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اس غیر حاضری پر انہیں بڑا ملال رہتا تھا۔فرمایاکرتے تھے: یہ حق وباطل کے درمیان پہلا معرکہ تھا جس میں جناب رسول اللہ نے شرکت فرمائی اور میں اس سعادت سے محروم رہ گیا، اگر اللہ تعالیٰ نے پھر ایسا موقع عنایت فرمایا تو اللہ دیکھے گا کہ دین حق کو سربلند کرنے کے لیے میں کیا کارنامے سرانجام دیتا ہوں۔ غزوہ احد میں بڑے ہی ذوق وشوق سے شریک ہوئے، اس جنگ میں اچانک ایسا سانحہ رونما ہوا کہ مسلمانوںمیں بھگدڑ مچ گئی۔ آپ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا ’’الہٰی جو کچھ مسلمانوں سے سرزد ہوا میں اس کے لیے معافی کا طلبگار ہوں اورجو کچھ مشرکین نے کیا ہے اس سے میں لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔
ان کا گزر ایسی جگہ سے ہوا جہاں چند صحابہ کرام مایوسی کے عالم میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے پوچھا کہ اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟ بڑی بے بسی سے کہنے لگے، حضور شہید ہوگئے ہیں، اب ہم کیا کریں۔ آپ نے ان کو جھڑکتے ہوئے کہا: حضور کے بعد زندہ رہ کر تم کیا کرو گے، اٹھو اوراس مقصد کے لیے اپنی جان قربان کردو جس مقصد کے لیے ہمارے آقا نے جان دی ہے۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے، جبل احد کے پاس حضرت سعدبن معاذ سے ملاقات ہوگئی، انھوںنے کہا: انس میں تمہارے ساتھ ہوں، حضرت انس کفارکی صفوں میں گھس گئے، باربار کہہ رہے تھے ’’واہ !واہ! مجھے جنت کی خوشبو آرہی ہے، نضر کی پروردگار کی قسم! میں جبل احد کی طرف سے جنت کی خوشبو محسوس کررہا ہوں‘‘۔ بڑی جرأت سے مصروف پیکار رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا، حضرت انس بن مالک کہتے ہیںکہ نیزوں، تیروں اور تلواروں کے اَسی سے زیادہ زخم ان کے جسم پر لگے ہوئے تھے۔ مشرکین نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس بے دردی سے ان کی لاش کا مثلہ کردیا کہ وہ پہچانی نہیں جاتی تھی۔ ان کی ہمشیرہ نے ایک انگلی کے پورے یا ایک تل کے نشان سے ان کو بمشکل پہچانا۔ انس بن مالک کہتے ہیں، قرآن کی یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی ’’اہل ایمان میں ایسے جواں مرد ہیں جنہوں نے سچا کر دکھایا جو وعدہ انھوں نے اللہ سے کیا تھا‘‘۔ (الاحزاب ۱۲) ایک بار انکی بہن ربیع بنت نضر کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ قصاص میں ان کا دانت توڑ دیا جائے توانس بن نضر نے کہا: یارسول اللہ! خدا کی قسم ربیع کا دانت نہ توڑا جائے گا، انھوںنے اللہ پر اعتماد کرکے قسم کھائی تھی۔ حالات ایسے ہوئے کہ دوسرا فریق دیت لینے سے راضی ہوگیا اور ربیع قصاص سے بچ گئیں۔ اس پر حضور نے ارشادفرمایا: خدا کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ جب قسم کھاتے ہیں تو خدا ان کی قسم پوری کرتا ہے۔ (بخاری،ج ۲ ،ص ۴۶)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024