23 مارچ 1940ء ایک تاریخ ساز اور یاد گار دن ہے، اس دن پاکستان کے عوام خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیںکہ ان کے عظیم قائد کی سربراہی میں بر صغیر کے مسلمانوں نے ایک قرارداد منظور کر کے الگ وطن کا مطالبہ کیا ۔ علامہ اقبال نے جو خواب 1930ء میں دیکھاتھا وہ سیاسی طور پر 1940ء میں پورا ہو گیا اور انیس سو سینتالیس میں اس خواب کی عملی تعبیر مل گئی۔ 1946ء میں منتخب نمائندوں کے کنونشن دہلی میں قائد اعظم کی قیادت میں ایک قراداد منظور کر کے قرار پاکستان کی مزید تعبیر اور تشریح کی گئی اور حصول پاکستان کے مقاصد کو واضح انداز میں بیان کیا گیا۔ 1937ء کے انتخابات کے بعد جب کانگرس نے مختلف صوبوں میں اپنی حکومت قائم کی تو اس نے سیاسی مفاہمت کے وعدوں اورمعاہدوں کے باوجود مسلمانوں کو اقتدار میں شامل نہ کیا بلکہ مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کے حقوق سلب کر لئے گئے، تعصب اور امتیاز پر مبنی اس ناروا سلوک کے بعد مسلم لیگ کے لیڈر اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے اور ہمیشہ کے لئے دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری بن کر رہیں گے۔ ہندو ذہنیت کا عملی مشاہدہ کرنے کے بعد قائداعظم اور ان کے رفقاء نے 23 مارچ 1940ء کو قرار داد کے ذریعے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کردیا جو پورے برصغیر کے مسلمانوں کا مطالبہ بن گیا۔
1946ء اور 194ء کی قراردادوں کا پس منظر یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان کمزور تھے، ان کو مساوی شہری کے طور پر سیاسی جمہوری سماجی اور معاشی حقوق حاصل نہیں تھے، ہندو ہر شعبے میں بالادست تھے اور مسلمانوں کی کوئی آواز نہیں تھی، گھٹن اور مایوسی کے عالم میں خدا نے مسلمانوں کو قائداعظم محمدعلی جناح کی صورت میں ایک بے لوث قیادت فراہم کی، جس نے اپنے عمل ارادے اور یقین محکم سے مسلمانوں کے دلوں میں اُمید کے چراغ روشن کیے اور ان میں آزادی کی روح پھونک دی۔ قائداعظم نے اپنے اور مسلمان عوام کے درمیان اعتماد کا لازوال رشتہ قائم کیا۔ جب مسلمانوں اور قائداعظم کے درمیان خلوص محبت اور یقین کا اٹوٹ رشتہ پیدا ہوگیا تو پھر لاکھوں عوام قائداعظم کے جلسے میں آتے، قائد انگریزی میں تقریر کرتے جسے مسلمان سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں مگر ان کا دل یہ محسوس کرتا کہ ان کے قائد جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ قائداعظم نے ایک جانب انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کا مقابلہ کیا اور دوسری جانب عوام کو منظم اور فعال کرنے کے لئے شب و روز محنت کی۔ پاکستان کے سیاسی لیڈر قائداعظم اور سیاسی مفکر علامہ اقبال نے پاکستان کا جو نظریہ اور تصور پیش کیا، اس کے مطابق پاکستان کو ایک ایسی فلاحی اور جمہوری ریاست بنانا تھا ،جس میں ہر مذہب نسل اور رنگ کے شہریوں کو مساوی مواقع اور مساوی مراعات فراہم ہوں تاکہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ترقی اور خوشحالی کی منزل پر پہنچ سکیں۔ دونوں قائدین نے ایک ایسے پاکستان کا تصور دیا تھا جس میں سرمایہ داری اور جاگیر داری کے بجائے انصاف اور مساوات پر مبنی نظام رائج کیا جانا تھا تاکہ بااثر طبقات محروم طبقات کا استحصال نہ کر سکیں۔ قائداعظم نے اپنے خطابات میں واضح اور دوٹوک انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں کرپشن رشوت ستانی اور ذخیرہ اندوزی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا اور حکومتی مناصب پر تمام تعیناتیاں میرٹ پر کی جائیں گی تاکہ عوام کو اچھی حکمرانی فراہم کی جا سکے۔ ان کے جان و مال کا تحفظ کیا جاسکے اور ریاست میں امن قائم ہو۔ پاکستان کے شہری پوری آزادی کے ساتھ کاروبار کر سکیں اور دوسرے فرائض انجام دے سکیں۔
قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان سرمایہ داروں کے لئے نہیں بلکہ غریب عوام کے لئے حاصل کیا ہے جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم تھے اور ان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں تھے۔ قائداعظم نے پاکستانی قوم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ سول سرونٹس ان کے آقا نہیں بلکہ خادم ہوں گے، عوام کی خدمت سول سرونٹس کی اولین ذمہ داری ہوگی۔ تعلیمی نصاب کی ترتیب و تشکیل اس طرح کی جائے گی جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی قوم وجود میں آسکے اور ان میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز نہ ہو۔ خدا کے فضل سے 71 سال کے بعد بھی پاکستان زندہ و سلامت ہے مگر قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات سے کھلے انحراف کی وجہ سے آزادی کی روح غائب ہوچکی ہے۔ پاکستان کے عوام انصاف سے محروم ہیں، انہیں معاشی انصاف حاصل نہیں ہے۔ پاکستان عملی طور پر آج بھی انگریز راج سے گزر رہا ہے، انگریز تو کب کے رخصت ہو چکے ہیں مگر ان کی ذہنی اور فکری غلام آج بھی پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں اور عوام ان کی بالا دستی میں اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ کروڑوں شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کرپشن اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ عادی لٹیرے لوٹ مار کر کے قومی دولت پاکستان سے باہر لے جاتے ہیں، جبکہ ریاست غیر ملکی قرضوں غربت اور جہالت کی زنجیروں میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔ ان حالات میں لازم ہے کہ آزادی کی روح کو بازیاب کیا جائے تا کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔ اس مقصد کے لئے لازم ہوگیا ہے کہ پاکستان کے عوام مینار پاکستان پر جمع ہوکر ایک نئی قرارداد منظور کریں۔اس قرارداد کو گزشتہ ستر سال کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں تیار کیا جائے۔ ریاستی نظام کو اس طور پر تبدیل کیا جائے کہ عوام کو اچھی حکمرانی فوری اورسستا انصاف میسر ہوں۔ پاکستان کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ جینے کا حق مل سکے، پاکستان کے عوام مافیازکے چنگل سے آزادی حاصل کر سکیں جن لوگوں نے ملکی دولت کو لوٹا ہے ، ان کا کڑا احتساب کر کے ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جا سکے۔ پاکستان کے عوام بیدار اور باشعور ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ سب متحد اور منظم ہوکر پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے مفاد کے لئے ایک نئی قرارداد منظور نہ کر سکیں۔ نئی اجتماعی قرارداد تحریک پاکستان کی روح کو بازیاب کرانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 1940ء اور 1946ء کی قراردادوں کے بعد اب حالات کا تقاضا ہے ملک اور قوم کی ضرورت ہے کی نئی قرارداد منظور کی جائے جسے نیا سوشل کنٹریکٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40