آج پوری قوم بھرپور انداز میں 80واں یوم پاکستان منا رہی ہے، یاد رہے کہ 23 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک (اب مینار پاکستان) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936ئ/1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور اس کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم طاری تھا۔ جبکہ دوسری جانب کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔ پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کی جیت ہوئی تھی۔
غرض ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس دوران کانگریس نے، جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دے دی گئی۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس بھی پیدا ہو نے لگا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی دو قومی نظریہ کا نقطہ آغاز تھا کہ مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کا احساس بیدارہوا۔
اسی دوران میں دوسری جنگ عظیم کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ ہوا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہو گئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئیے اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔
یاد رہے کہ اس اجلاس سے چار روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلائیں۔ اس خونیں واقعہ میں 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس خون ریزی کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی بر سر اقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔ موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں، درحقیقت قائد اعظم کا یہی خطاب دو قومی نظرئیے کا آغاز تھا۔
دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یک جا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ جس نے صرف سات سال کے عرصے میں حقیقت کا روپ دھار لیا اور یہ حقیقت14 اگست 1947ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے آگئی۔ تشکیل پاکستان کے بعد سے جیسے 14 اگست کو یوم آزادی منایا جاتا ہے۔
اسی طرح 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے کہ اسی روز اُس وقت کے منٹو پارک( موجودہ پارک ) کے مقام پر منعقدہ مسلم لیگی اجلاس میں پیش کی جانے والی قرارداد لاہور بالآخر تشکیل پاکستان پر منتج ہوئی۔ اسی روز وطن عزیز کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے شہریوں اور فوجیوں کو مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے، عسکری پریڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کو شہری انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ دیکھتے ہیں، جبکہ اس مرتبہ یوم پاکستان کی پریڈ میں خصوصی شرکت کے لئے ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد بھی تین روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ہیں، یقین ہے کہ پوری قوم ہر قسم کے سیاسی، گروہی، فرقہ وارانہ، لسانی یا صوبائی اختلافات سے بالاتر ہوکر یوم پاکستان کی خوشیوں میں متحد ہوکر شریک ہوگی، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تا قیامت یہ دن آزادی کے ساتھ منانے کی توفیق عطا فرمائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024