23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے عظیم الشان اجلاس کو تحریک پاکستان کا نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کا عملی آغاز ہوا ۔ مسلمانوں نے اپنے لئے الگ وطن کی بنیاد دو قومی نظریے کو قرار دیاتھا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا اور یہاں کی مذہبی طاقتوں نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ مزاحمت بھی کی۔۔۔۔ اس امر کا اظہار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے لاہور میں ہونے والے اسی اجلاس میں کیا۔ انہوں نے فرمایا "اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں، بلکہ درحقیقت وہ مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں یہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 1940ء میں واضح طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں اور یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کے خدشات کا حل ان کے لئے علیحدہ مملکت کے قیام ہی میں مضمر ہے۔ مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کی بنا پر پنجاب کو مسلمانوں کی سیاست میں اہم مقام حاصل تھا اور ہندوستانی مسلمانوں کے نقطہ نظر کو مئوثر انداز میں پیش کرنے کے لئے اس صوبے کی مکمل حمایت ضروری تھی۔ چنانچہ مسلم لیگ کے فیصلے کے مطابق پنجاب کے دل لاہور کو مارچ 1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس اور قرار داد لاہور کی منظوری کے لئے منتخب کیا گیا۔ قرار داد لاہور کے محرک بنگال کے لیڈر مولوی فضل حق تھے اور یہ 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمان صرف اس دستوری ڈھانچے کو قابل عمل سمجھیں گے، جسے مرتب کرتے ہوئے ذیل کے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہوگا۔ جغرافیائی طور پر متصلہ وحدتوں کے صوبے اس طرح وضع کئے جائیں کہ جن میں مسلمان بلحاظ تعداد زیادہ ہیں، جیسے کہ شمال مغربی زون ہیں۔ انہیں باہم ملا کر ہندوستان کے اندر خو د مختار آزاد مملکتیں بنا دی جائیں، جن میں بنائے گئے یونٹ آزاد اور خود مختار ہوں۔ اس اجلاس میں سندھ ، پنجاب ، بلوچستان ، بنگال اور سرحد کی طرح کشمیر کا وفد مولانا غلام حیدر جنڈالوی اور سردار فتح محمد بریلوی کی قیادت میں شامل تھا۔ اس اجلاس کے اختتام پر قائد اعظمؒ نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا، "ہندوستان اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف فلسفوں، سماجی رسوم اور ادبی روایات سے ہے۔ وہ نہ تو باہمی شادیاں کرتے ہیں اور نہ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور حقیقت میں ان کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے، جو بنیادی طور پر متصادم نظریات و تصورات پر مبنی ہیں۔ ان کا تصور حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان کے ہیرو اور تاریخ الگ الگ ہیں۔ ایک فریق کے ہیرو اکثر صورتوں میں دوسرے کے لئے ناپسندیدہ شخصیتیں ہیں۔ ان کی تاریخ میں ایک فریق کی شکست دوسرے فریق کی فتوحات رہی ہیں۔ ان دو قوموں کو اکثریت اور اقلیت کی حیثیت میں ایک ہی ریاست میں اکٹھا رکھنا ملک میں بے اطمینانی کے فروغ کا باعث ہو گا، مسلمان ہر اعتبار سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور انہیں اپنا وطن ، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ملنی چاہیے۔ تاریخی حوالوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دو قومی نظریہ سب سے پہلے سر سید احمد خان نے تحریری شکل میں پیش کیا تھا۔ برصغیر میں وہی پہلے شخص تھے جنہوں نے 1857ء کی تحریک آزادی کی ناکامی کی وجوہات کا پتہ چلانے کے لئے سوچ بچار کی ۔ سرسید احمد خان کی طرف سے دو قومی نظریہ پیش کر دیئے جانے کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی ادوار میں ہندوئوں کی جماعت کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ جدوجہد آزادی کے حامی رہے لیکن جب انہوں نے ہندو رہنمائوں کی مسلمانوں کے خلاف متعصب پالیسیوں کا عملی مظاہرہ دیکھا تو مسلمانوں کے لئے قائم ہونے والی ایک الگ سیاسی جماعت مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے روزنامہ نوائے وقت کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظمؒ کے کہنے پر مسلم لیگ کے کارکن اور نوجوان صحافی حمید نظامی مرحوم نے 15 روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔ بعد ازاں روزنامے میں تبدیل ہو گیا۔ وسیع المقاصد اخبار تھا اس کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا قیام دو قومی نظریہ کا فروغ اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ بھی شامل تھا۔ حمید نظامی کی وفات کے بعد مجید نظامی مرحوم نے روایت کو قائم رکھا وہ پاکستان کی ایسی شخصیت تھے کہ ان کے نظریہ پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے 70 سال صحافتی زندگی میں گزارے۔ نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ مجید نظامی مرحوم اور نوائے وقت کے انتہائی متحرک اور قابل قدر کردار سے سب بخوبی آگاہ ہیں ۔ ان کا قائم کردہ ادارہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سابق صدر پاکستان رفیق احمد تارڑ اور سیکرٹری شاہد رشید اور دیگر عہدیداران کی سرپرستی میں نظریہ پاکستان کے فروغ کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ آج بھی نوائے وقت اور اس کے ادارات اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024