قوم نے جرنیلی آمریتوں کو قبول نہیں کیا تو وہ جوڈیشل مارشل لاء کی مزاحمت کیلئے بھی تیار ہے
78 ویں یوم پاکستان کے موقع پر نوائے وقت گروپ کا آئین و جمہوریت کی پاسداری کیلئے کلمہ ٔ حق ادا کرتے رہنے کا عزم
آج 23 مارچ کو قوم مثالی جوش و جذبے کے ساتھ 78واں یوم پاکستان روایتی جوش و جذبے سے منا رہی ہے اور اس ارض وطن کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ روزنامہ نوائے وقت بھی آج تسلسل کے ساتھ جاری اپنے باوقار صحافتی سفر کے 78ویں سال میں قدم رکھ رہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے آج ملک میں عام تعطیل ہے‘ پرنٹ میڈیا نے اپنی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر یوم پاکستان کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر اور ٹیلی کاسٹ کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح آج سرکاری اور نجی سطح پر یوم پاکستان کی خصوصی تقریبات کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔یوم پاکستان کے موقع پر آج ایوان صدر اور گورنر ہائوسز میں مختلف مکتبہ ہائے زندگی کی شخصیات میں قومی ایوارڈوں کی تقسیم کی تقریبات ہونگی۔ آج دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21, 21 توپوں کی سلامی سے ہوگا جبکہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں افواج پاکستان اور دوسری سکیورٹی فورسز کے علاوہ مختلف شہری تنظیموںکی خصوصی پریڈ کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ نوائے وقت گروپ کی آج کے دن سے خاص نسبت ہے کیونکہ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کی منظوری کے موقع پر قائداعظم نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کے بانی صدر اور تحریک پاکستان کے نامور کارکن حمیدنظامی کو متعصب ہندو پریس کے زہریلے پراپیگنڈے کے توڑ کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان اخبار نکالنے کی ہدایت کی تھی جس کی تعمیل کرتے ہوئے حمیدنظامی نے اسی وقت پندرہ روزہ نوائے وقت کے اجراء کا اعلان کیا جس کا پہلا شمارہ 29 مارچ 1940ء کو منظرعام پر آیا۔اپنے 77 سال کے سفر میں نظریۂ پاکستان کی آبیاری اور تحفظ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے آج نوائے وقت ایک تناور درخت بن چکا ہے جسے مرحوم حمیدنظامی کے بعد انکے چھوٹے بھائی اور نظریاتی ساتھی مجید نظامی نے انکے اصولوں کا دامن تھامتے ہوئے پروان چڑھایا اور اسے ایک باقاعدہ صحافتی امپائر کی شکل دی۔ مرحوم مجید نظامی کی محنت شاقہ‘ عزم و ہمت اور جرأت و استقامت سے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ ہفت روزہ ندائے ملت‘ ہفت روزہ فیملی میگزین‘ ماہنامہ ’’پھول‘‘ اور نیوز چینل ’’وقت ٹی وی‘‘ کی شکل میں پھوٹنے والی کونپلیں بھی آج تناور درخت بن کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کررہی ہیں اور قوم کیلئے نظریاتی چھائوں کا اہتمام کررہی ہیں۔
اس مناسبت سے نوائے وقت گروپ آج یوم پاکستان اور نوائے وقت کی سالگرہ کے موقع پر پوری قوم کا سپاس گزار ہے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کی حیثیت سے دشمنانِ پاکستان و اسلام کی ہر سازش کا منہ توڑ جواب دیتے رہنے کے عہدکی تجدید بھی کررہا ہے۔ آج جس عزمِ صمیم کے ساتھ پوری قوم اور عساکر پاکستان ملک کی سالمیت کیخلاف دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کے گھنائونے ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے کمربستہ ہیں‘ نوائے وقت گروپ بھی انکے شانہ بشانہ ہے اور دہشت گردی کی جنگ میں سرخروئی کا متمنی ہے۔ اسی طرح آج ملک میں استحکام کی جانب گامزن جمہوریت کو اپنوں‘ بیگانوں کی سازشوں کے تحت پھر سے پٹڑی سے اتارنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس کیلئے جوڈیشل مارشل لاء جیسے ماورائے آئین اقدام کی تجاویز سامنے لائی جا رہی ہیں تو اس ملک خداداد کی تشکیل کا باعث بننے والی جمہوریت کی پاسبانی کا فریضہ ادا کرنا بھی نوائے وقت گروپ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی طرح اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے جس کیلئے وہ بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی اور معمارِ نوائے وقت مجید نظامی کے اصولوں پر کاربند رہ کر کلمۂ حق ادا کررہا ہے۔ آج وطن عزیز میں جمہوری اقدار کے فروغ‘ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی وہ مثالی صورتحال موجود نہیں جو بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی آدرشوں کے مطابق تشکیل پانے والی اس ارض وطن کی ضرورت ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جن آئینی اداروں کو آئین اور اسکے تحت قائم جمہوری نظام کی پاسداری اور استحکام کا فریضہ ادا کرنا چاہیے جو درحقیقت ان کا آئینی فریضہ بھی ہے‘ وہ آج کدالیں اٹھا کر اسی جمہوری نظام کی بنیادیں ہلانے کے درپے نظر آتے ہیں جس کیلئے آئین کی متعلقہ شقوں کی اپنی من مرضی کی تاویلیں پیش کی جارہی ہیں۔ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے اسکے رکن شیخ رشید احمد نے جس انداز میں ملک میں تین ماہ کیلئے جوڈیشل مارشل لاء لگانے کی تجویز پیش کی وہ جمہوریت کے تسلسل کو بریک لگانے والے کسی اور کے مشن کی ہی عکاسی کررہی ہے اور اسی تناظر میں حکمران مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت جمہوریت سے وابستہ جماعتوں کے قائدین نے اس غیرآئینی تجویز پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز نے اس تجویز کو جمہوریت کیخلاف دل کی بات زبان پر آنے سے تعبیر کیا ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ جوڈیشل مارشل لاء کی اصطلاح وہی استعمال کرسکتا ہے جسے مارشل لاء سے پیار ہو۔ یہ تجویز چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی حکومتی گورننس اور جمہوریت پر تمام مبینہ خرابیوں کا ملبہ ڈالنے والی عدالتی فعالیت کے تناظر میں پیش کی گئی ہے تو اسکے پس پردہ محرکات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ سسٹم کی اصلاح اور کرپشن فری معاشرے کی تشکیل پوری قوم کا مطمحٔ نظر ہے اور بانیٔ پاکستان قائداعظم کی زیرقیادت شروع ہونیوالی تحریک قیام پاکستان کے مقاصد بھی برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسے خطۂ ارضی کے حصول کے تھے جہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہو اور بلاامتیاز تمام شہریوں کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور اسی طرح ہر شہری کو مذہبی عبادات کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ آئین کی چھتری کے نیچے یہ تمام شہری آزادیاں جمہوری نظام کے تحت ہی حاصل ہوتی ہیں جس کیلئے آئین میں ادارہ جاتی ذمہ داریاں متعین کردی گئی ہیں۔ اگر کوئی ادارہ اپنی متعینہ آئینی ذمہ داریوں سے باہر نکل کر شہریوں کے حقوق کی وکالت کرتا ہے اور ان حقوق سے مبینہ محرومی کا آئین کے تحت قائم سسٹم پر ملبہ ڈالتا ہے تو ایسی ماورائے آئین سوچ یا منصوبہ بندی کی حمایت کرنا آئین کی بے توقیری کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم جرنیلی آمروں کی ماورائے آئین اقدامات کی سوچ کو آئین کو سبوتاژ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں اور اس بنیاد پر انکے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت آئین سے غداری کے جرم کی سزا لاگو کرنے کے متقاضی ہوتے ہیں تو جوڈیشل مارشل لاء کی سوچ بھی یقیناً اسی زمرے میں آتی ہے۔ اس تناظر میں آج ہمیں بالخصوص یوم پاکستان کے موقع پر آئین کے تحفظ و دفاع کیلئے کردار ادا کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہمیں بانیانِ پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کے زریں اصولوں اور انکے اجاگر کئے گئے تصور پاکستان اور نظریۂ پاکستان پر کاربند رہنے کے عہد کی تجدید کی ضرورت بھی ہے‘ جبکہ آج ہمیں دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملانے کے عہد کی بھی تجدید کرنا ہوگی۔
قیام پاکستان کے بعد ابھی تک اپنی منزل کے حصول کیلئے سرگرداں اس وطنِ عزیز کے آزمائش اور ابتلا کے دور میں بانیان ِ پاکستان کے جانشین ہونے کے دعویداروں کو آج یوم پاکستان کے موقع پر روایتی تجدید عہد سے آگے نکل کر ملک کی ترقی اور سلطانیٔ جمہور کے ذریعے عوام کی فلاح کیخلاف قائم اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ توڑنے کا عہد کرنا ہوگا اور اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کیلئے انفرادی اور اجتماعی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو بانیانِ پاکستان نے عملاً کرکے دکھایا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کا آج کا بیانیہ یقیناً اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ قرار داد پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی قائداعظم کی خواہش پر اپنے صحافتی سفر کا آغاز کرنیوالے ادارہ نوائے وقت نے قائد کے اعتماد کو آج تک ٹھیس نہیں پہنچائی اور آج اپنے سفر کا 78واں سال شروع ہونے پر وہ اپنے قائد کی روح اور قوم کے سامنے سرخرو کھڑا ہے۔ قائداعظم کو یقیناً اس کا مکمل ادراک تھا کہ قیام پاکستان کے بعد بھی دو قومی نظریے‘ مسلم لیگ اور پاکستان کو مخالف عناصر کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑیگا جس کے توڑ کیلئے ایک ایسے اخبار کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں پاکستان کا ترجمان اور اسکی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہو، الحمد اللہ! تحریک پاکستان کے نوجوان کارکن حمید نظامی نے قائداعظم کی خواہش پر 23 مارچ 1940ء کو نوائے وقت کے اجراء کی شکل میں نظریاتی بنیادوں پر دفاع پاکستان کا جو بیڑا اٹھایا تھا، آج اپنے سفر کے 77 سال پورے ہونے پر ادارہ نوائے وقت تعمیر و تکمیل پاکستان کیلئے قائداعظم کی ہدایات کی روشنی میں وضع کردہ اپنے اصولوں پر آج بھی اسی طرح کاربند ہے اور ایک مضبوط نظریاتی اخباری ادارہ بن کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ آج نوائے وقت اسی عزم کی تجدید کے ساتھ اپنی اشاعت کے 78 ویں سال کا آغاز کر رہا ہے۔ الحمداللہ! ہم نے کبھی ’’نوائے وقت‘‘ کو مالی منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا‘ ہمیشہ کلمہ حق بلند کیا‘ اصولوں کی پاسداری کی، نظریۂ پاکستان کا تحفظ کیا اور اس ماٹو کو حرز جاں بنایا کہ ’’بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔ ’’وقت نیوز‘‘ ٹی وی چینل بھی انہی جذبوں کا پیامبر ہے جو ’’نوائے وقت‘‘ کی بنیاد ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کی استقامت سے نوازتا رہے اور ہمت دیتا رہے کہ اس وطن عظیم کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی پارلیمانی ریاست بنانے کیلئے ہم اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کرتے رہیں۔ یہی پاکستان کا مقصد تھا، ہے اور رہے گا اور یہی پاکستان کی بنیاد ہے۔ امید ہے کہ اس جہد مسلسل میں اہل وطن اور قارئین و ناظرین محترم کا ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’وقت نیوز‘‘ کو تعاون اور انکی سرپرستی و دعائیں بدستور حاصل رہیں گی۔
آج جیسا پاکستان نظر آرہا ہے بانیان پاکستان ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آدھا عرصہ آمریت کی نذر ہو گیا۔ جمہوری ادوار میں بھی جمہوریت کبھی مضبوط نہیں رہی جبکہ آج جمہوریت سے وابستہ اداروں کے ہاتھوں ہی جمہوریت خطرات میں گھری نظر آرہی ہے۔ آج دہشتگردی اور لاقانونیت اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ مہنگائی و بیروزگاری کا سیل رواں کبھی تھما نہیں۔ آج بجلی و گیس کی قلت ہے تو اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ ہماری سرزمین پر وسائل کی کمی نہیں ہے۔ ان پر ذاتی دسترس کی خواہش سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے مگر ہمارے جمہوری اور جرنیلی آمر حکمرانوں نے اسے ذاتی مفادات کی آماجگاہ بنا لیا۔ بہرحال اب بھی اصلاح کی گنجائش ہے اس لئے قوم اور اسکے سیاسی‘ دینی اور ادارہ جاتی قائدین کو یوم پاکستان کے موقع پر روایتی تجدید عہد سے آگے نکل کر اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کیلئے انفرادی اور اجتماعی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔پاکستانی قوم ہی ارض وطن کو نکھار کر جنت کا عملی نمونہ بناسکتی ہے۔