چار موسموں کے خطے میں موسم بہار کے رنگ بکھرتے ہیں تو لوگوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں، خوشیاں سماں باندھ دیتی ہیں۔ ہر کوئی اپنے طریقے اور طرز سے خوشیاں مناتا ہے ۔ ایران میں جشن نوروز مارچ کی 21 کو شروع ہوتا ہے۔ نوروز تک برپا رہنے والا یہ جشن عید کی طرح صدیوں سے منایا جاتا ہے۔ ان دنوں شدید سردیوں کے بعد موسم کھلتا ہے، ہر سو پھولوں کی خوشبوئیں بکھری اور رنگ و نور پھیلا نظر آتا ہے ۔ اس جشن میں کچھ مذہبیت بھی شامل ہوگئی ہے۔ نو کی مناسبت سے ایرانی صدر حسن روحانی عید نوروز پر افغانستان، تاجکستان، پاکستان، آذربائیجان، ترکمانستان، آرمینیا، ترکی، قزاقستان اور ازبکستان کے سربراہوں کے نام الگ الگ پیغامات میں مبارکباد پیش کی ۔
خطے میں ہندو برادری بڑی تعداد میں موجود ہے‘ ان کا جشن بہاراں منانے کا منفرد اور جداگانہ طریقہ ہے۔ موسم بہار کی آمد پر ہندو برادری ہولی مناتی ہے۔ہولی کو رنگوں کا جشن کہا جاتا ہے، ہولی کی خوشیوں کوبرائی پر اچھائی کی فتح کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔کل ہولی منائی جارہی ہے،ہندوبرادری اس روز رنگوں کی برسات کرتی ہے،ہر ہندوان رنگوں میں رنگا جاتاہے سوائے ہندو بیوائوں کے۔ بیواؤں کو معاشرے سے الگ تھگ کر کے مندروں میں رہنے پر مجبور کیا جاتاہے۔ان کو دوسری شادی کی اجازت نہیں۔ہولی پر بیوائیں سفید لباس میںخاموشی سے عبادت میں مصروف رہتی ہیں۔ بدشگونی سمجھتے ہوئے دیگر تہواروں سے بھی اس مخلوق کو دور رکھا جاتا ہے تاہم اب کچھ تبدیلی محسوس ہورہی ہے۔ بھارتی شہر ورندون کو بیواؤں کا شہر کہا جاتا ہے۔ ریاست اتر پردیش کے شہرورندون میں ہزاروں بیوائوں کو پناہ دی گئی ہے۔ کچھ برسوں سے ان خواتین کی زندگی میں بھی رنگ بکھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک امدادی تنظیم سولب انٹرنیشنل 2013ء سے ورندون میں باقاعدگی سے خواتین کیلئے ہولی کے تہوار کا اہتمام کرتی ہے۔جہاں انکی سفید ساڑھیوں پرنیلے،سبز اور سرخ رنگ بکھرتے ہیں۔اگر یہ رنگ معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ان پر بکھریں تو ان کو داغ اور دھبہ قراردیا جاتاہے۔
ہم پاکستانیوں کیلئے بہار کا موسم کئی بہاریں لے کر آتا ہے۔ ہر سو پھول کھلتے ہیں، دل ملتے ہیں، گندم کی فصل جوبن پر ہوتی ہے، حکومتی سطح پر جشن بہاراں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہروں کو سجایا جاتا ہے اگلے سال جب بلدیاتی ادارے فعال ہونگے تو عوامی نمائندے یقیناً اپنے اپنے شہر قصبے، گائوں اور علاقے کو دن میں خوشبوئوں سے مہکا دینگے اور رات کو بقعہ نور بنا دینگے۔ لاہور کوتو اب بھی سجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ گئی، جو ان دنوں بھی رات کو جگمگاتا ہے۔ 23 مارچ کے موقع پر لاہور کو روشنیوں سے نہلانے کیلئے زبردست انتظامات کئے گئے ہیں۔ لاہور کی سڑکوں پر سبز، نیلی اور سرخ روشنیاں سٹریٹ لائٹس کے ساتھ ساتھ فروزاںہیں۔ درختوں کے اوپر قندیلیں جگمگ کرتی ہوئی برستی نظر آتی ہیں، تنوں کے گرد لپٹی روشن جھالری اور لڑیاں کسی حسینہ کی تنی گردن میں ہیرے جواہرات کے ہاروں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ریس کورس میں اس جشن کی بہاریں ہر کسی کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ زیرتعمیر سگنل فری شاہراہ پر سٹریٹ لائٹ اور بجلی کے پول گلدستہ نما رنگ برنگی لائٹوں سے مزین کر دئیے گئے ہیں، ان میں سے متعدد جلتی ہیں تو حسین اور دلفریب منظر ہوتا ہے۔ 23 مارچ کو سب کی جھلملاہٹ یقیناً روح پرور ہو گی۔
23 مارچ 1940ء کو موسم بہار میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی، اس قرارداد سے قیام پاکستان کی کونپلیں نکلتی اور کلیاں کھلتی چلی گئیں۔ 23مارچ کو پورے ملک میں یوم پاکستان کی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ ہمارے قومی جاہ و وقار کی سب سے بڑی تقریب اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ ہے۔ اس میں جس طرح مارچ پاسٹ ہوتا ہے اور ہوئی جہاز کرتب دکھاتے ہیں، اس سے جذبۂ حب الوطنی کوجِلا ملتی ہے۔ یہ پریڈ دہشت گردی کی وجہ سے کئی سال معطل رہی۔ گزشتہ سال پھرسے اس کا باقاعدہ آغاز اسی جوش و جذبے اور شان و شوکت سے ہوا جو ہمیشہ سے اس کا خاصا رہا ہے، اس پرپاک فوج کو کریڈٹ دینا چاہئے۔ اس جشن کو منانے اور خوشی کے لوٹانے پر جنرل راحیل شریف کی جرأت کا قوم برملا اعتراف کرتی ہے۔ آج فوج ضرب عضب میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کیلئے پرعزم اور قوم اسکی پشت پر ہے۔ مگر فوج کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
یوم پاکستان پر جب ہم بانیان پاکستان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے 200 سابق پاکستانی فوجیوں کو علامتی پھانسی دینے کا اعلان کیا ہے۔ نام حسینہ جو اسم بامسمہ نہیں بلکہ اسم بامذمہ ہے، ہمارے استاد اور بزرگ بچپن میں ہمیں کہتے۔ ’’شکل اچھی نہیں تو بات ہی اچھی کر لیا کرو ۔‘‘مجیب کی بیٹی تک بھی کوئی یہ پیغام پہنچادے۔ اسکے علامتی پھانسی کے اقدام سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑیگا تاہم اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے، وہ پاکستان سے کتنی نفرت کرتی اوراس کیخلاف دُشمنی میں کہاں تک جا سکتی ہے۔ 200 سابق فوجیوں کو تو وہ علامتی پھانسی لگا رہی ہے جبکہ اسی پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کو حقیقت میں تختہ دار پر چڑھارہی ہے۔الشمس اور البدر پاک فوج کی مدد کو اس وقت آئے جب مشرقی پاکستان میں پاک فوج اور ایک طرف بھارتی فوج کے ساتھ برسر پیکار تھی، دوسری مجیب الرحمٰن کے ایما پر پاکستان کے اس حصے میں متوازی حکومت بن چکی تھی، بنگالیوں کی اکثریت گمراہ ہو کر ہندوئوں کے ساتھ مل کر پاک فوج اور غیر بنگالی مسلمانوں کے گلے کاٹ رہی تھی۔ الشمس اور البدر کی تشکیل پاک فوج نے کی، آج ان لوگوں کو پاکستان کو بچانے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے کمال اور کارناموںپر پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہر صورت بچانے کی کوشش کرے۔ سیاسی حکمرانوں کی بات کریں تو ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔پاکستان میں ہمیشہ سے فوج کا سکہ چلتا ہے، آج بھی فوج پس پردہ رہ کر سب کچھ نہیں تو بہت کچھ کر رہی ہے۔ مشرف ایسے ہی ملک سے نہیں چلے گئے،زرداری اور الطاف یونہی واویلا نہیں کررہے،خود مسلم لیگ ن کا بھی گرم توے پر بلاوجہ پائوں نہیں آگیا۔ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کو پھانسیاں سے بچانا معروضی حالات اور اصل میں پاک فوج کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ گروپ فوج نے تشکیل دئیے تھے،اب ان کو ستمگر حسینہ کے ستم سے بچانا پاک فوج کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38