جن واقعات نے ہماری قوم کو نئی زندگی بخشی‘ آزادی سے ہمکنار کیا اور ترقی و خوشحالی کے راستے کھول دئیے انہیں جشن کے طور پر منانا حق بجانب بھی ہے اور ہم پر فرض بھی۔ انہی واقعات میں سرِفہرست آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں 23 مارچ 1940ء کے روز پیش ہونے والی اور دوسرے دن منظور ہونے والی وہ قرارداد ہے جسے قراردادِ لاہور یا عرفِ عام میں قراردادِ پاکستان کہا جاتا ہے۔
یہ محض قرار داد نہ تھی بلکہ 83 سالوں کی جدوجہد کا ثمر تھا۔ ہماری قومی زندگی میں اس قرارداد کو بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو امریکہ کی زندگی میں 4 جولائی 1776ء کے اعلانِ آزادی کو حاصل ہے یا فرانس میں 14 جولائی 1789ء کو برپا ہونے والے انقلاب کو جس نے یورپ میں جمہوریت کے قافلہ کو رواں دواں کیا یا حال ہی کے 11 فروری 1979ء کے اسلامی انقلاب کو جس نے ایران کے شب و روز کو بدل دیا اور اب دنیائے عرب بھی اس قسم کی لہر کی زد میں آ چکی ہے جسے موسم بہار کے انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔
قرار دادِ لاہور بھی اسی نوع کی ایک عالمی انقلابی دستاویز ہے۔ اس قرار داد کی منظوری سے پہلے صرف یہی نہیں کہ اسلامیان ہند کو اپنی نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا بلکہ ساری اسلامی دُنیا یورپی اقوام کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ قراردادِ لاہور نے حقِ خود ارادیت اور خود مختاری و آزادی کی راہیں روشن کر دیں۔ اس سے نہ صرف اسلامیان ہند قیامِ پاکستان کی شکل میں فیض یاب ہوئے بلکہ دُنیا بھر کی مظلوم قوموں کو یہ پیغام ملا کہ اگر کسی جگہ الگ تہذیبی تشخص رکھنے والی قوم اکثریت میں ہو تو اسے اپنی قسمت کا خود مالک بننے اور آزاد و خود مختار ہونے کا حق حاصل ہے اور نیز یہ کہ ایسی جگہ بسنے والی اقلیتوں کو بھی برابری کی سطح پر انسانی حقوق اور اپنی تہذیبی روایات کو محفوظ رکھنے کی سہولتیں حاصل ہوں گی۔ اس بات کو عام طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ عالمی طور پر حق خود ارادیت کی اصل محرک قرارداد لاہور تھی۔ حق خودارادیت کے اصول کو دنیا بھر میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں قرارداد لاہور کے پانچ سال بعد 1945ء میں شامل کیا گیا تھا۔ اس اصول کی بنیاد پر بے شمار ممالک یکے بعد دیگرے آزاد ہوئے اور اس اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد 192ہو گئی ہے۔
اس قرارداد کی بدولت پہلے اسلامیانِ ہند نے پاکستان (بشمول بنگلہ دیش) کی شکل میں آزادی حاصل کی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی دُنیا کو یورپی اقوام کے چنگل سے چھٹکارا ملا۔ اسی طرح جنوبی مشرقی ایشیا اور وسطی روس میں مسلم اکثریت والے علاقے قرار دادِ لاہور کے اصول کی پیروی کرتے ہوئے آزاد ہوئے۔ بوسنیا‘ کوسووو اور البانیہ یورپ میں اس تحریک کے اثرات کی زندہ مثالیں ہیں۔ کشمیری اور فلسطینی بھی اس حق کے حصول کیلئے آگ اور خون کے دریا میں کودے ہوئے ہیں۔ شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک کی آزادی کی تحریکوں میں پاکستانی سفارتکاروں نے براہِ راست حصہ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی یہ پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی کہ پاکستان کی آزادی سے تمام عرب اور غیر عرب اسلامی ممالک حقیقی معنوں میں آزاد ہوں گے اور نیز یہ کہ پاکستان ہندو ازم کے پھیلائو کے راستے میں آہنی دیوار ثابت ہوگا۔ (قاہرہ میں 20 دسمبر 1946ء کی پریس کانفرنس)۔ واضح رہے کہ قرار دادِ لاہور نے خود ارادیت کے جس اصول کو قوموں کا فطری حق قرار دیا تھا وہ اب ایک مستحکم انسانی حق بن چکا ہے۔
قرارداد لاہور کا ایک طاقتور پہلو وہ جمہوری بیداری تھی جس کا سب سے پہلا مظاہرہ خود تحریک پاکستان تھی جس نے سات سال کے قلیل عرصے میں وہ زورِ دروں حاصل کیا کہ اسلامیان ہند نے 1945-46ء کے انتخابی معرکے میں تمام لسانی‘ مذہبی‘ سیاسی اور علاقائی گروہ بندیوں کو شکست فاش دی اور قائداعظمؒ کی چوکس اور ایماندارانہ قیادت اور علامہ اقبالؒ کے فکری ولولوں کے تحت تمام مفاداتی رکاوٹوں کو پیس کر رکھ دیا اور بیک آواز ایک آزاد مسلم ریاست کے حق میں فیصلہ سُنا دیا۔
یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی مشکل حالات کے باوجود پاکستانی عوام نے کئی بار اپنی متحدہ قوت کا مظاہرہ کیا ہے جو سراسر قرارداد لاہور کے محرک جذبات و احساسات کی مرہون منت ہے۔ چار کڑے مارشل لا عوامی طاقت کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ 1965ء کی جنگ اور 1998ء کے جوہری دھماکے کے مواقع پر زبردست بیرونی دبائو کے باوجود قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی اور جہاں تک 1971ء کے سانحے کا تعلق ہے اس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں تھا بلکہ بنگلہ دیشی عوام نے جو تحریک پاکستان کا اثاثہ ہیں ہندوئوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام کر کے اپنا الگ وجود اب تک قائم رکھا ہے۔ طاقتور جذبات اخوت کے نقطۂ نظر سے جدید دور میں شاید ہی کوئی ایسی ریاست ہو جس کے لوگوں نے اہل پاکستان کی طرح چالیس لاکھ افغانیوں اور دیگر علاقوں کے کئی لاکھ مہاجرین کی پذیرائی کر کے زبردست معاشی اور سماجی بوجھ برداشت کیا ہو۔ یہ امر بھی کم اہم نہیں کہ ہم اکثر صوبائی‘ لسانی اور مذہبی جھگڑوں سے دوچار رہتے ہیں لیکن بحرانوں اور قومی کارناموں کے موقعوں پر حیران کن یکسانیت اور یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزاد عدلیہ کیلئے وکلا کی صوبائی حدود سے ماورا تحریک اور 19 مارچ کا عوامی لانگ مارچ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی طرح کشمیر کے زلزلہ زدگان کی مدد کا مسئلہ ہو یا 20/20 کرکٹ چیمپین شپ چیتنے کا کارنامہ‘ کراچی سے شمالی علاقوں تک ایک ہی جیسی دل کی دھڑکنیں سُنائی دیں۔ عوامی طاقت کا ایک اور مظاہرہ حالیہ قومی انتخابات تھے جس میں عوام کی آزادانہ سوچ گروہی سوچوں پر حاوی ہو گئی۔
ان تمام واقعات و خصوصیات کی بناء پر ڈیوک یونیورسٹی (Duke University) کے پروفیسر رالف برے بینٹی (Ralph Braibanti) کا کہنا ہے کہ 1945ء کے بعد نمودار ہونیوالی ریاستوں میں کسی ریاست نے پاکستان ایسے ہولناک ہچکولے نہیں کھائے لیکن اسکے دوست اور دشمن سب حیران ہیں کہ یہ نہ صرف زندہ رہنے کی توانائیاں رکھتی ہے بلکہ اپنے مذہبی‘ تمدنی اور جغرافیائی رشتوں کی وجہ سے وسطی ایشیا کا سب سے زیادہ متحرک‘ باسکت اور جدید دور کی خصوصیات کا حامل زمینی اور ثقافتی مرکز (Epicentre) ہے۔
(Journal of South Asia and Middle Eastern Studies, No.1, Fall)
پاکستان کو یہ سکت‘ یہ قوت اور یہ توانائیاں کہاں سے ملی ہیں؟ اپنے توحید پرست غریب عوام سے جنہیں مولانا ظفر علی خانؒ ’’فرزندان توحید کا ٹھاٹھیںمارتا ہوا سمندر‘‘ کہتے ہیں۔
قرارداد لاہور کی بدولت اﷲ تعالیٰ نے ہمیں صرف آزادی کی دولت سے نہیں نوازا بلکہ آگے بڑھنے کی تمام صلاحیتیں دی ہیں اس سلسلے میں قائداعظم نے آزادی کی پہلی سالگرہ پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ قدرت نے پاکستان کو ہر شے دے رکھی ہے اور غیر محدود وسائل سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری پاکستانیوں کی ہے کہ قدرت کی فیاضیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اس سلسلے میں قائدکا یہ ویژن ہمارے سامنے رہنا چاہئے۔ قرارداد پاکستان سے متعلق جن کلیدی حقائق کا ذکر کیا گیا ہے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس خطے میں جو توانائیاں اور آگے بڑھنے کے روشن امکانات رکھے ہیں وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نوجوان نسلوں کو اس سے آگاہ کرے کیونکہ آگہی ایک ایسی قوت ہے جو رکاوٹوں کو پیس کر مردانِ خود آگاہ کو تیز قدم بنا دیتی ہے۔اسکے علاوہ اس قرارداد نے استعمار پرستی پر کاری ضرب لگا کر قوموں کیلئے آزادی و حریت کی راہیں استوار کی ہیں اور بے شمار ریاستوں کو قومی شناخت عطا کی ہے۔ یہ امور پاکستانیوں کیلئے باعث فخر ہیں اور اس لحاظ سے قراردادِ لاہور اس امر کی مستحق ہے کہ ہر سال اس کا شایان شان چرچا کیا جائے۔ 23 مارچ 2015ء کو قرارداد پاکستان کو منظور ہوئے 75 سال ہو جائیں گے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ قرارداد پاکستان کی اس پلاٹینیم جوبلی کو انتہائی تزک و احتشام سے منایا جائے۔ اس سلسلے میں 23 مارچ 2014ء سے ہی پلاٹینیم جوبلی تقریبات کا آغاز ہو جائے گا جو سال بھر جاری رہیں گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024