پورے ہندوستان پر کانگرس کی متعصب اور بنیاحکومت قائم تھی۔ مسلم اقلیتی صوبوں میں کانگرسی حکومتوں کے خاتمہ پر مسلم لیگ نے قائداعظم محمد علی جناحؒکی زیرِ ہدایت 22دسمبر 1939ءکو ملک کے طول و عرض میں بڑی کامیابی سے یومِ نجات منایا۔ اس وقت تک برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کئی تجویزیں اور اسکیمیں منظر عام پر آچکی تھیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے 26 مارچ 1939ءکو مصطفےٰ محل میرٹھ میں اپنے اجلاس کے دوران قائداعظمؒ کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ تمام دستوری تجاویز اور سکیموں کا جائزہ لینے کے بعد مجلس عاملہ کو رپورٹ پیش کرے۔ بعدازاں اتفاق رائے سے لیگ کا سالانہ اجلاس عام 22‘23‘ 24مارچ 1940ءکو منعقد ہونا طے پایا۔ 19مارچ کو خاکساروں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کیا اور جلوس نکالا۔ پولیس سے ان کا تصادم ہوا اور گولی بھی چلی۔ سرکاری حکام کے مطابق پولیس فائرنگ سے82خاکسار جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اجلاس لاہور کے ایک عینی شاہد کے مطابق خاکساروں کے بیدردانہ قتل عام سے لاہور کی فضائیں سوگوار تھیں۔ بدمزگی اور بے کیفی کا یہ عالم تھا کہ لاہور میں وقت کاٹنا دشوار ہوگیا تھا۔ قائداعظمؒ 21مارچ کو فرنٹیئر میل کے ذریعے لاہور پہنچے ریلوے اسٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگوں کا جوش قابل دید تھا۔ ”قائداعظمؒ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ساری فضا گونج رہی تھی۔“ دوسری طرف خاکسار مسلم لیگ کے اجلاس کے پرامن ماحول اور قائداعظمؒ کی ذات کے لیے خطرہ کا باعث بن رہے تھے اور یہ دونوں باتیں یکساں طور پر باعث اضطراب تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس مخدوش فضا اور نازک صورتحال کے پیشِ نظر سب سے پہلے ہسپتال جاکر زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ جب جلسہ گاہ میں پہنچے تو انہوں نے برجستہ تقریر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی تقریر تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی ان کا لہجہ کبھی سخت ہوجاتا تھا کبھی نرم‘ کبھی ناقدانہ تو کبھی طنزیہ‘ کبھی گہرا اور انتہائی بارعب تو کبھی بے حد مشفقانہ۔ ان کی شخصیت کا کچھ ایسا اثر دبدبہ اور رعب تھا کہ حاضرین جلسہ کی ایک بہت قلیل تعداد کے سوا باقی سب ایسے لوگ تھے جو انگریزی سے قطعاً نابلد تھے۔ مگر قائداعظمؒ کے سحر سے سب مسحور ہوکر رہ گئے تھے اور ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق لوگوں کو مسخر کیے ہوئے تھے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق مسٹر جناح نے جب اپنا برجستہ خطبہ صدارت ارشاد فرمایا جو مسلسل ایک سو منٹ تک جاری رہا۔ اس دوران ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے اجتماع پر سکوت طاری تھا۔ (ان دنوں) ہندوستانی مسلمانوں کے اجتماعات میں یہ اجتماع سب سے زیادہ نمائندہ تھا جو قائداعظمؒ کی خطابت سے مستفیض ہوا۔ پنجاب‘ بنگال اور آسام کے (مسلمان وزراءاور مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر مسلم ارکان نے اس میں شرکت کی)اس اجتماع میں خواتین کی بڑی تعداد اور نیشنل گارڈز کی موجودگی بھی قابلِ ذکر ہے۔
قائداعظمؒ نے ہندوﺅں اور مسلمانوں کے جداگانہ قومیتی وجود کو حقیقی فطرت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”ہندوﺅں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ اسلام اور ہندوازم مذہب کے عام مفہوم ہی نہیں۔ بلکہ واقعی دو جداگانہ اور مختلف اجتماعی نظام ہیں اور یہ محض خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم بن سکیں گے۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا کہ وزیراعظم بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کرنے کے بعد اس کی حمایت میں تقریر بھی کی جس میں انہوں نے بنگال اسمبلی میں اپنی ایک تقریر کا حوالہ بھی دیا اور یہ ثابت کیا کہ فرزندانِ توحید کی آزادی کی صرف یہی ایک صورت ہے۔ چودھری خلیق الزماں نے اس قرار داد کی تائید کی۔ ان کی تائیدی تقریر کے بعد مولانا ظفر علی خاں‘ سرحد اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر سردار اورنگ زیب خاں اور سرعبداللہ ہارون نے تقاریر کیں۔ کم و بیش پورے برصغیر کی مسلمان قیادت نے اس پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے نئے عزم اور ولولے سے سفر آزادی شروع کرنے کا عہد کیا۔ اس تاریخی جلسے اور قرارداد کو اس لیے بھی اہم مقام حاصل ہے کہ یہ ایک اجتماعی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ اجتماعی طور پر تمام مسلمان ایک قوت اور ایک تحریک کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج 73 سال بعد جب پھر وہی دن ہمارے لیے اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ ملک میں آئندہ انتخابات قریب ہیں۔ اسی تناظر میں اگر ہم اپنی تمام تر توانائی دوسروں کو گندا اور غلط ثابت کرنے پر صرف کردیں تو یہ کوئی تعمیری اور مثبت طرز عمل نہیں اور نہ ہی اس طرح سے قوم میں کوئی نیا ولولہ و جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ہم پہلے ہی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر آدھا ملک گنوا بیٹھے ہیں اور آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں جس کے لیے 23مارچ 1940ءکی قرار داد پیش کی گئی تھی۔ اب اگر مزید نئے پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے ہم باقی تمام اکائیوں اور پہلوﺅں کو نظر انداز کردیں تو یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔ لہٰذا سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے انتہا پسندی سے اجتناب کرنا ہوگا ورنہ نتیجہ ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں اور آئندہ بھی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024