تاریخ کا اس سے بڑھ کر اور کیا جبر ہو سکتا ہے کہ ہم نے جدوجہد آزادی کے ان سپوتوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے جن کو برصغیر پر قابض غیر ملکی فرنگی نے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ ان 82 شہیدوں نے قرارداد پاکستان سے صرف چار روز پہلے 19 مارچ 1940ءکو سرزمین لاہور پر پاکستان کی بنیادوں میں اپنا جوان اور تازہ خون دے کر قرارداد پاکستان کے چہرے کو لالہ زار کر دیا۔ اس غیر معمولی واقعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائداعظم قرارداد پاکستان کے اجتماع میں شرکت کیلئے 21 مارچ 1940ءکو لاہور پہنچے تو آپ بغیر کسی سے ملے اور آرام کئے ریلوے سٹیشن لاہور سے سیدھے میو ہسپتال لاہور تشریف لے گئے اور برٹش حکومت کی گولیوں سے چھلنی زخموں سے چُور خاکساروں کی حالت دیکھ کر زار و قطار رو دئیے۔ اس موقع پر قائداعظم نے فرمایا ”کیا رعیت حکمرانوں کے اس طرح کے سلوک کی مستحق ہے؟ خدا کی قسم جب تک ایک ایک شہید خاکسار کے خون کا بدلہ نہ لوں گا مجھے سکون نہ آئے گا۔“ 19 مارچ 1940ءکے خاکسار شہداءپاک و ہند کی سب سے بڑی تنظیم خاکسار تحریک کے رضاکار تھے۔ کراچی سے خیبر اور برما سے راس کماری تک اس تحریک کے 20 لاکھ رضا کار تھے۔ خدمت خلق، اتحاد، یکجہتی، اخوت و بھائی چارہ اور قطار بندی اس تحریک کے بنیادی اصول تھے۔ 20ویں صدی کے سب سے بڑے ریاضی دان سکالر عالم محمد عنایت اللہ المشرقی اس تحریک کے بانی و قائد تھے۔ علامہ المشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کو بے بسی، بے کسی اور بے چارگی سے نکال کر انہیں اپنے ملی تشخص کا احساس دلانا چاہتے تھے ان کے اس فکر و عمل نے انگریز ہندو اور تمام اسلام دشمن طاقتوں پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ علامہ المشرقی فرماتے ہیں کہ ”گوشت پوست کی اس دنیا میں غالب آنا آگ اور خون کا کھیل ہے۔ جو قوم جس وقت تک یہ کھیل کھیلتی ہے غالب ہے شکست اور زوال اس وقت آتے ہیں جب قومیں اس سبق کو بھول جاتی ہیں۔“ فروری 1940ءمیں علامہ المشرقی کا نظریہ انقلاب اکثریت یا خون شائع ہوا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ”ہندوستان کی حفاظت کیلئے ایک ہندو کے مقابلے میں دس مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ دیا لہٰذا ہندوستان پر حکومت کرنے کا حق بھی اسی قوم کو حاصل ہے جس نے اس کی حفاظت کیلئے سب سے زیادہ خون دیا ہو۔“ علامہ المشرقی ا ور ان کی خاکسار تحریک کا نعرہ اکثریت یا خون سامنے آتے ہی انگریز اور اس کی حاشیہ بردار کانگرس اور بعض ضمیر فروش مراعات یافتہ مسلمانوں نے تاج برطانیہ کو باور کرایا کہ علامہ المشرقی اورخاکسار تحریک عسکریت اور طاقت کے زور پر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال کر اقتدار اعلیٰ پر قابض ہونا چاہتے ہیں لہٰذا جس قدر جلد ہو سکے خاکسار تحریک پر پابندی لگا دی جائے۔“
19 مارچ 1940ءجمعة المبارک کا دن تھا اندرونِ بھاٹی دروازہ لاہور کے محلہ کی مقامی جماعت جن کی تعداد 313 تھی جمعة المبارک کی ادائیگی کیلئے قطار بندی کے ساتھ بادشاہی مسجد کی جانب روانہ ہوئی۔ حضوری باغ سے کچھ ہی قدم کے فاصلے پر نوگزہ چوک کے قریب انگریزی فوج کے دستہ نے نہتے خاکساروں کو زبردستی روک کر گھیرے میں لے لیا اور ان پر مشین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے 82 خاکسار موقع پر ہی شہید ہو گئے، سینکڑوں زخمی ہوئے جو زندہ بچ گئے انہیں بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ قابض برٹش حکومت نے خاکسار تحریک کو کالعدم قرار دے کر اس کی تنظیمی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی....
رات بے نام شہیدوں کے لئے روتی ہے
ان شہیدوں کا لہو دل سے لگا کر رکھ لے
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024