شہید اکبر بگتی بلوچستان کے دور دراز ڈیرہ بگتی میں خاص طور پر اہتمام کرتا تھا کہ نوائے وقت ان کے پاس پہنچے۔ وہ پاکستان کے حوالے سے باخبر ہونے کے لئے نوائے وقت پڑھتے تھے۔ کسی نے پوچھ لیا تو بگتی صاحب نے کہا کہ خبریں تو ہر اخبار میں ہوتی ہیں مگر نوائے وقت میں شائع ہو کر کوئی خبر پاکستان کی خبر بن جاتی ہے۔ جن دنوں انہوں نے اردو بولنا ترک کر رکھا تھا۔ ان دنوں بھی وہ نوائے وقت کے طفیل اردو پڑھتے ضرور تھے۔ ان کی شہادت پر نوائے وقت نے دوسروں سے مختلف درد کا اظہار کیا تھا۔ بگتی صاحب کے ساتھ اختلافات کی خبر بھی نوائے وقت میں شائع ہوئی تھی۔ کالم بھی تنقیدی ہوتے ہیں مگر اس بات کا بھی مزا نوائے وقت میں آتا ہے کہ اپنے لئے مخالفانہ تاثرات کو اہمیت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ نوائے وقت میں تعریف اور تنقید کی حیثیت ایک جیسی ہے مدح اور مذمت سے بے نیاز ہو کر ہی آدمی کوئی مقام حاصل کرتا ہے۔ شنید ہے کہ باچا خان سرحدی گاندھی خان غفار خان بھی نوائے وقت کسی سے پڑھوا کر سنتے تھے کہ ہمارے خلاف اور پاکستان کے حق میں آج کیا کچھ چھپا ہوا ہے؟
نوائے وقت اپنے پڑھنے والوں کی تربیت کرتا ہے۔ یہاں لکھنے والے بھی سیکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نوائے وقت صحافت میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس وقت تمام اخبارات میں جتنے بڑے نام ہیں۔ وہ نوائے وقت سے گئے ہیں۔ نوائے وقت کی خصوصی اشاعت اور وقت نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں ان لوگوں کے تاثرات بھی ریکارڈ کئے گئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نوائے وقت ہی وہ ٹھکانہ ہے کہ سچے لفظ و خیال کے سب راستے اس طرف جاتے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد حمید نظامی صرف 14 سال زندہ رہے۔ انہیں جو موقع ملا انہوں نے اسے جاوداں بنا دیا اور بے پناہ خلوص و لگن سے نوائے وقت کو وقت اور ملک و ملت کی انتہائی موثر آواز بنا دیا۔ وہ وقت جو پاکستان میں گزر رہا ہے اس کے بعد انہوں نے موت سے پہلے اپنا سب کچھ مجید نظامی کے حوالے کر دیا۔ یہ موروثی سیاست یا موروثی صحافت سے مختلف ایک ورثہ ہے۔ جسے ایک ذمہ داری اور امانت کی طرح مجید نظامی نے قبول کیا اور تکمیل تک پہنچا دیا۔ انہیں اس میدان میں پچاس سال ہو رہے ہیں۔ یہ واقعی نصف صدی کا قصہ ہے جسے اکیسویں صدی کے لئے ایک تحفہ بنا دیا گیا ہے۔ حمید نظامی مرحوم کے بعد کچھ عرصہ کیلئے نوائے وقت پر برا وقت بھی آیا مگر اس وقت کو اچھا وقت بنانے کا فریضہ مجید نظامی نے ادا کیا۔
صحافتی برادری میں کئی لوگ قابل ذکر ہیں مگر جو کچھ نظامی برادران نے کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ مولانا ظفر علی خان کے بھائی بھی بہت جلیل القدر تھے مگر وہ مختلف میدانوں میں معرکہ آرائی کرتے رہے۔ مجید نظامی کی اپنی خدمات بیش بہا ہیں مگر انہوں نے اپنے عظیم بھائی کی یاد سے اپنے دل کو آباد رکھا اور ان کی خوشبو میں اپنی خوشبو ملا کے پورے زمانے میں اس مہک کو عام کر دیا۔ برادرم محترم ضیا شاہد کا دلچسپ مضمون ”حمید نظامی کی خوشبو“ جو نوائے وقت کی گزشتہ دو اشاعتوں میں قسط وار شائع ہوا ہے، دل لگا کے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
2010ء کا 23 مارچ اس لحاظ سے اہم ہے کہ امریکہ کے ساتھ فیصلہ کن مذاکرات انہی دنوں میں ہو رہے ہیں۔ یوم پاکستان پر یہ واقعہ بہت اہم ہے۔ اس موقع پر جنرل کیانی سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت عسکری قیادت کو ساتھ رکھے گی تو فوجی مداخلت کا خطرہ بھی نہیں رہے گا اور فیصلوں میں استحکام اور اعتماد آئے گا۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے پر مجید نظامی اور نوائے وقت کے ولولہ انگیز کردار کو اپنا رہنما بنایا جائے۔ 23 مارچ سے ایک دن پہلے سندھ واٹر کونسل نے مجید نظامی کو آبی جارحیت بے نقاب کرنے پر ایوارڈ دیا جو جنرل حمید گل نے انہیں پیش کیا۔ جنرل حمید گل نے پانی کے مسئلے پر بہت جذبے سے گفتگو کی۔ مجید نظامی نے کہا کہ اب سندھ واٹر کونسل کو پاکستان واٹر کونسل کے نام سے پکارا جائے۔ انہوں نے کہا یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قائداعظمؒ کتنی بصیرت اور حکمت والے لیڈر تھے۔ انہوں نے پاکستان بنتے ہی کہہ دیا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ سنجیدگی سے کرنا ہوگا اور جلد کرنا ہو گا۔ جب تک بھارت کو یہ یقین نہ ہو جائے گا کہ ہم کچھ نہ کچھ کرنے والے ہیں تو کچھ نہیں ہو گا۔
ظفراللہ خاں، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام تقریباً ہر تقریب میں موجود ہوتے ہیں۔ نجانے تقریباً کا تقریب سے کیا تعلق ہے کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تحت تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی ہے۔ ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی ہیں۔ ظفراللہ خاں نے سٹوڈنٹ لائف میں تحریک پاکستان کے ایک کارکن کے طور پر کام کیا تھا۔ ان کو چند روز پہلے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام گولڈ میڈل دیا گیا۔ مجید نظامی اور کرنل جمشید ترین کی موجودگی میں شہباز شریف نے گولڈ میڈل دیا۔ یوم پاکستان اور یوم نوائے وقت کے موقع پر ظفراللہ خاں نے ”فیضان رحمت بے کراں“ کے نام سے 150 ہندو شاعروں کا نعتیہ کلام مرتب کرکے ایک کتاب شائع کی ہے۔ عشق و مستی والے ظفراللہ خاں نے اس کتاب کے لئے بڑی محنت کی ہے۔ ظفراللہ خاں سچے عاشق رسول ہیں اور پاکستان کو قریہ عشق محمد سمجھتے ہیں۔ ! !