محمود مرزا
9۔ مارچ 2007ء کو وکلا نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔ طویل تحریک کے دوران وکلا کے نظریاتی مقاصد میں وسعت آ گئی۔ بنیادی مقصد چند روز پہلے 16 مارچ کو حاصل ہوا، جب ایمرجنسی کے ذریعہ معزول جج صاحبان کے بحال ہونے کا اعلان کیا گیا۔ مگر وکلا کے وسیع تر نظریاتی مقاصد کی تکمیل ابھی باقی ہے۔ وکلا رہنمائوں کی پیش کردہ سماجی فکر کی وضاحت جناب اعتزاز احسن نے شاعرانہ پیرائے میں کی ہے جس کا اہم مصرع ہے ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘۔ اس نظم میں جمہوری فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ ذیل کی سطور میں فلاحی ریاست کے کچھ پہلوئوں پر غور کیا گیا ہے۔
جہاں فلاحی ریاستیں موجود ہیں وہاں ٹیکس کی قومی پیداوار سے نسبت چالیس فیصد سے زیادہ ہے۔ ٹیکس نظام ہی ریاست کو یہ صلاحیت بخشتا ہے کہ وہ بڑے پیمانہ پر فلاحی خدمت سرانجام دے۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے سوا فلاحی ریاستیں معاشی، تکنیکی اور معاشرتی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں قومی پیداوار ایسی اشیا اور خدمات پر مشتمل ہے جو اونچی مالیت (value addition) کی حامل ہیں۔ وہاں پیداواری عمل جدید علوم اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ معاشرے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے پسماندہ زرعی نہیں۔ وہاں یورپی نسل کا باشندہ عام طور پر جھوٹ یا منافقت سے کام نہیں لیتا۔ وہاں پیدا ہونے اور مرنے والے افراد کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے۔ دوسرے معنی میں مقامی آبادی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر قومی آمدن میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ فی کس آمدن اونچی رہتی ہے اور اس قابل ہوتی ہے کہ اونچی شرح سے ٹیکس ادا کرتی رہے۔
ابھی ہمارے یہاں سماجی ترقی کے معاملات قومی توجہ کے مستحق نہیں بنے۔ میڈیا کو چاہیے اِس موضوع کی جانب متوجہ ہو۔ ہمارے یہاں ٹیکس کی قومی پیداوار سے نسبت تقریباً دس فیصد ہے۔ ہماری معیشت زرعی اور نیم صنعتی ہے۔ معاشرہ نیم جمہوری ہے۔ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے کئی علاقے قبائلی ہیں۔ وہاں نظم و نسق، جرگہ سسٹم اور سرداری نظام کے مطابق قائم ہے۔ فی الحال ہم معاشی، سماجی اور انتظامی تقاضے پورے نہیں کرتے کہ بڑے پیمانے پر سماجی خدمت کا فریضہ ادا کرنے کے قابل ہوں۔ ہماری ریاست نے ماحولیات اور پبلک ہیلتھ کو تباہی سے نہیں بچایا۔ معاشی انفراسٹرکچر (مثلاً پانی کے ذخائر اور بجلی گھر) تعمیر نہیں کیا۔ چنانچہ پیداواری عمل برقرار رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی جماعتوں نے ڈیسک ورک نہیں کیا۔ وکلا رہنما کی جانب سے ویلفیئر اسٹیٹ کا آئیڈیل پیش کرنا اچھی بات ہے۔ مگر انہیں معاشرے کو جدید بنانے اور معاشی عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے رائے عامہ منظم کرنے کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔ ویلفیئر سٹیٹ کی جانب پیشرفت کے لیے ڈیسک ورک کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن کے انڈی پینڈنٹ پلاننگ کمیشن نے مفید کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس کمیشن میں توانا معاشی فکر کے دو بڑے نام شاہد کاردار اور ڈاکٹر پرویز طاہر شامل ہیں۔ اس کتابچہ کو پرکھنا اور آگے لے جانا چاہیے۔
فلاحی ریاست کی دو ضروریات ہیں۔ پہلی ضرورت مالی وسائل کی ہوتی ہے اور دوسری رفاہی اخراجات کی۔ ہمارے یہاں پہلی شرط اس وقت تک پوری نہ ہوگی جب تک ٹیکس ریوینو نہ بڑھے۔ ہماری ریاست میں زرعی آمدن، پراپرٹی اور کمپنی شیئرز کے کیپٹل گین پر ٹیکس عائد نہیں۔ دوسری جانب تجارت اور صنعت پیشہ افراد آمادہ نہیں کہ وہ کاروبار کے حسابات رکھیں۔ اس بارے میں قوانین موجود ہیں ان کا احترام کرنے اور عملدرآمد کرانے والے موجود نہیں۔ کاروبار کے سروے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ پاپولر پارٹیاں اس مشکل کام میں ہاتھ ڈالنے کا سیاسی ارادہ نہیں رکھتیں۔ یہ کام وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی سے مدد طلب کرتا ہے۔ جنہیں پاپولر ووٹ کا لالچ نہیں۔ اگر معیشت ڈاکومنٹ نہ ہوئی تو ہماری ریاست کبھی ’’ماں کے جیسی‘‘ خدمت سرانجام نہ دے سکے گی۔ وکلا کی تنظیم کو چاہیے کہ وہ بڑی سیاسی جماعتوں کو آمادہ کریں کہ وہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی طرز پر ’’میثاقِ دستاویزیت‘‘ پر بھی اتفاق قائم کریں۔
وکلا نے عزم کر لیا ہے کہ وہ مقامی سطح کی عدالتوں کے نظام کی جانب متوجہ ہوں گے۔ مگر پولیس کے نظام کی اصلاح کی بھی فوری ضرورت ہے۔ اگر پولیس نظام اور نچلی سطح کی عدلیہ کا نظم و نسق بہتر ہو جائے تو عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ قوم کا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ اگر انصاف کا حصول سستا اور آسان ہو جائے تو جھگڑے طے کرنے کے متبادل نظام کے نئے نئے مطالبات بھی پیش نہ آئیں گے۔ البتہ وہ علاقے جو سرِدست قبائلی طرزِ زندگی پر اصرار کرتے ہیں، ان کا مطالبہ بے وزن نہیں۔ عدلیہ اور پولیس کا مروجہ نظام ناکام ہو چکا ہے۔ قبائلی عوام کا پسندیدہ نظام وہ ہے جو والی ٔ سوات کے دور میں قائم تھا۔ تب نیک دل حکمران سیدھے سادے اصولوں سے سادہ معاشرہ چلاتا رہا۔ یہ طریقِ کار اُن کی سماجی ترقی کی سطح کے مطابق تھا۔ قبائلی عوام پر ایسا نظام مسلط نہیں کرنا چاہیے جو تہذیبی اعتبار سے غیر ہو۔
کئی روایتی معاشروں میں قانون کی تبدیلی سے سماجی تبدیلی پیدا نہیں ہوا کرتی۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں رہنے والی آبادی کے ساتھ باہمی مفادات کی سانجھ کی ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا کہ باہمی مفاد کے مواقع بڑھائے جائیں اور ان کی سماجی ترقی کی سطح بلند کرنے کی تدابیر کی جائیں۔
9۔ مارچ 2007ء کو وکلا نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔ طویل تحریک کے دوران وکلا کے نظریاتی مقاصد میں وسعت آ گئی۔ بنیادی مقصد چند روز پہلے 16 مارچ کو حاصل ہوا، جب ایمرجنسی کے ذریعہ معزول جج صاحبان کے بحال ہونے کا اعلان کیا گیا۔ مگر وکلا کے وسیع تر نظریاتی مقاصد کی تکمیل ابھی باقی ہے۔ وکلا رہنمائوں کی پیش کردہ سماجی فکر کی وضاحت جناب اعتزاز احسن نے شاعرانہ پیرائے میں کی ہے جس کا اہم مصرع ہے ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘۔ اس نظم میں جمہوری فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ ذیل کی سطور میں فلاحی ریاست کے کچھ پہلوئوں پر غور کیا گیا ہے۔
جہاں فلاحی ریاستیں موجود ہیں وہاں ٹیکس کی قومی پیداوار سے نسبت چالیس فیصد سے زیادہ ہے۔ ٹیکس نظام ہی ریاست کو یہ صلاحیت بخشتا ہے کہ وہ بڑے پیمانہ پر فلاحی خدمت سرانجام دے۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے سوا فلاحی ریاستیں معاشی، تکنیکی اور معاشرتی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں قومی پیداوار ایسی اشیا اور خدمات پر مشتمل ہے جو اونچی مالیت (value addition) کی حامل ہیں۔ وہاں پیداواری عمل جدید علوم اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ معاشرے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے پسماندہ زرعی نہیں۔ وہاں یورپی نسل کا باشندہ عام طور پر جھوٹ یا منافقت سے کام نہیں لیتا۔ وہاں پیدا ہونے اور مرنے والے افراد کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے۔ دوسرے معنی میں مقامی آبادی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر قومی آمدن میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ فی کس آمدن اونچی رہتی ہے اور اس قابل ہوتی ہے کہ اونچی شرح سے ٹیکس ادا کرتی رہے۔
ابھی ہمارے یہاں سماجی ترقی کے معاملات قومی توجہ کے مستحق نہیں بنے۔ میڈیا کو چاہیے اِس موضوع کی جانب متوجہ ہو۔ ہمارے یہاں ٹیکس کی قومی پیداوار سے نسبت تقریباً دس فیصد ہے۔ ہماری معیشت زرعی اور نیم صنعتی ہے۔ معاشرہ نیم جمہوری ہے۔ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے کئی علاقے قبائلی ہیں۔ وہاں نظم و نسق، جرگہ سسٹم اور سرداری نظام کے مطابق قائم ہے۔ فی الحال ہم معاشی، سماجی اور انتظامی تقاضے پورے نہیں کرتے کہ بڑے پیمانے پر سماجی خدمت کا فریضہ ادا کرنے کے قابل ہوں۔ ہماری ریاست نے ماحولیات اور پبلک ہیلتھ کو تباہی سے نہیں بچایا۔ معاشی انفراسٹرکچر (مثلاً پانی کے ذخائر اور بجلی گھر) تعمیر نہیں کیا۔ چنانچہ پیداواری عمل برقرار رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی جماعتوں نے ڈیسک ورک نہیں کیا۔ وکلا رہنما کی جانب سے ویلفیئر اسٹیٹ کا آئیڈیل پیش کرنا اچھی بات ہے۔ مگر انہیں معاشرے کو جدید بنانے اور معاشی عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے رائے عامہ منظم کرنے کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔ ویلفیئر سٹیٹ کی جانب پیشرفت کے لیے ڈیسک ورک کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن کے انڈی پینڈنٹ پلاننگ کمیشن نے مفید کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس کمیشن میں توانا معاشی فکر کے دو بڑے نام شاہد کاردار اور ڈاکٹر پرویز طاہر شامل ہیں۔ اس کتابچہ کو پرکھنا اور آگے لے جانا چاہیے۔
فلاحی ریاست کی دو ضروریات ہیں۔ پہلی ضرورت مالی وسائل کی ہوتی ہے اور دوسری رفاہی اخراجات کی۔ ہمارے یہاں پہلی شرط اس وقت تک پوری نہ ہوگی جب تک ٹیکس ریوینو نہ بڑھے۔ ہماری ریاست میں زرعی آمدن، پراپرٹی اور کمپنی شیئرز کے کیپٹل گین پر ٹیکس عائد نہیں۔ دوسری جانب تجارت اور صنعت پیشہ افراد آمادہ نہیں کہ وہ کاروبار کے حسابات رکھیں۔ اس بارے میں قوانین موجود ہیں ان کا احترام کرنے اور عملدرآمد کرانے والے موجود نہیں۔ کاروبار کے سروے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ پاپولر پارٹیاں اس مشکل کام میں ہاتھ ڈالنے کا سیاسی ارادہ نہیں رکھتیں۔ یہ کام وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی سے مدد طلب کرتا ہے۔ جنہیں پاپولر ووٹ کا لالچ نہیں۔ اگر معیشت ڈاکومنٹ نہ ہوئی تو ہماری ریاست کبھی ’’ماں کے جیسی‘‘ خدمت سرانجام نہ دے سکے گی۔ وکلا کی تنظیم کو چاہیے کہ وہ بڑی سیاسی جماعتوں کو آمادہ کریں کہ وہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی طرز پر ’’میثاقِ دستاویزیت‘‘ پر بھی اتفاق قائم کریں۔
وکلا نے عزم کر لیا ہے کہ وہ مقامی سطح کی عدالتوں کے نظام کی جانب متوجہ ہوں گے۔ مگر پولیس کے نظام کی اصلاح کی بھی فوری ضرورت ہے۔ اگر پولیس نظام اور نچلی سطح کی عدلیہ کا نظم و نسق بہتر ہو جائے تو عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ قوم کا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ اگر انصاف کا حصول سستا اور آسان ہو جائے تو جھگڑے طے کرنے کے متبادل نظام کے نئے نئے مطالبات بھی پیش نہ آئیں گے۔ البتہ وہ علاقے جو سرِدست قبائلی طرزِ زندگی پر اصرار کرتے ہیں، ان کا مطالبہ بے وزن نہیں۔ عدلیہ اور پولیس کا مروجہ نظام ناکام ہو چکا ہے۔ قبائلی عوام کا پسندیدہ نظام وہ ہے جو والی ٔ سوات کے دور میں قائم تھا۔ تب نیک دل حکمران سیدھے سادے اصولوں سے سادہ معاشرہ چلاتا رہا۔ یہ طریقِ کار اُن کی سماجی ترقی کی سطح کے مطابق تھا۔ قبائلی عوام پر ایسا نظام مسلط نہیں کرنا چاہیے جو تہذیبی اعتبار سے غیر ہو۔
کئی روایتی معاشروں میں قانون کی تبدیلی سے سماجی تبدیلی پیدا نہیں ہوا کرتی۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں رہنے والی آبادی کے ساتھ باہمی مفادات کی سانجھ کی ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا کہ باہمی مفاد کے مواقع بڑھائے جائیں اور ان کی سماجی ترقی کی سطح بلند کرنے کی تدابیر کی جائیں۔