دشوارتر ”پل صراط“
مکرمی : مختلف علاقوں خصوصاً دیہات میں زندگی بعد اَز موت کے بہت سے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بھیانک منظر چکوال روڈیونین کونسل ساہنگ تا ہردوچیڑھ اور دیرہ راجگان کو جانے والا روڈ پیش کرتا ہے۔ گزرتے وقت سوار کی کیفیت اس شخص جیسی ہوتی ہے جو دنیا میں گناہ کر کے آیا ہو اور اب دشوارتر پ±ل صراط پرلڑکھڑا رہا ہو۔ کسی بھی قدرتی آفت کی طرح یہ سب کو برابر تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ بچہ، بوڑھا یا جوان، بد یا پھر کوئی نیک و کار ہی کیوں نہ ہو، یہ ....پ±ل صراط سب کے لئے برابر دشوار ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبے میں موجود اس طویل کچی سڑک کو کئی بچوں کی جائے پیدائش اور کئی مریضوں کی جائے موت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ کیونکہ منٹوں کا سفر یہاں گھنٹوں میں ہوتا ہے اور مریض طبیب کے بجائے خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے۔ شاید اوپر جا کر خالقِ حقیقی کو شکایت بھی درج کراتا ہو کہ مولا تیرے زمینی خ±دا انتہائی مفادپرست ہیں، وعدے تو کر لیتے ہیں لیکن پورے کرتے وقت ان کی سیاسی اور انتظامی مجبوریاںآڑے آ جاتی ہیں۔ کیا ہو گا اگر جھوٹے وعدے کرنے والوں کے بجائے ان پر بار بار اعتبار کرنے والے مجرم ثابت ہو گئے؟ ہائے معصوم عوام اور روڈ کی تعمیر کے نام پر ووٹ مانگنے والے منگتے!!!روڈ کی اس خستہ حالی کی ذمی داری دونوں معصوموں پر برابر عائد ہے!!!اس سڑک سے ملحقہ علاقوں میں کثیر تعداد میں پڑھے لکھے اور باشعور لوگ رہتے ہیں۔ کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ سیاسی حلقے کو اس با ت کی بروقت یقین دہانی کرا دیں کہ اب جھوٹے وعدوں اور وقتی تسلی دلاسوں سے ان کی دال نہیں گلنے والی!!! انہیں احساس دلایا جائے کہ آپ کی یہ ادا ہے کی اب علاقے میں شعور کی آمد ہو گئی ہے اب مستقبل کے لیڈران اور ہمارے ووٹ کے درمیان کا رستہ بھی اس سڑک کی طرح کافی دشوار ہو گیا ہے۔ آپ کی کس پارٹی سے وابستگی ہے ہمارا اس بات سے کوئی سراکار نہیں ہے۔ ہمارا واحد سراکار اس بات سے ہے کی آپ علاقے کی فلاح کے لئے عملی طور پر کیا کرتے ہیں۔روڈ دو ، ووٹ لو!کیوں نہ روڈ دو ، ووٹ لو کی مہم چلائی جائے۔ ذاتی مفادات کے بجائے صرف اور صرف علاقائی اور عوامی مفادات کا سوچا جائے تاکہ ہمارے مریض بروقت اور با آسانی ہسپتالوں کو پہنچ سکیں۔ ورنہ ماضی بعید کی بنی اس سڑک پر ہمیں مزید کئی دہائیاں کزارا کرنا پڑے گا۔ مَت بھولیں کہ کنواں کبھی بھی پیاسے کے پاس نہیں آتا، پیاسے کو ہی ہمت کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں ہی قدم ا±ٹھانا ہو گا کیونکہ اس سڑک پر ہماری گاڑیوں کے پئے اور ہمارے جوتوں نے ہی گھسنا ہے۔ معزز لیڈران تو کیا ان کی عالی شان گاڑیاں بھی ان سڑکوں پر چلنا پسند نہیں کرتی، خصوصاً ووٹ لینے کے بعد کے پانچ سال!!وقت آ گیا ہے کہ ہم یک زبان ہو کر کہیں کہ، روڈ دو ، ووٹ لو۔(ارم مسعود ملک )