Waqt News
Tuesday | June 28, 2022
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
    • قومی
    • ملتان
    • بین الاقوامی
    • کاروبار
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • جرم و سزا
    • تفریح
    • لاہور
    • اسلام آباد
    • کراچی
  • متفرق شہر
    • آزادکشمیر
    • پشاور
    • حافظ آباد
    • سیالکوٹ
    • جھنگ
    • کوئٹہ
    • شیخوپورہ
    • سرگودھا
    • ساہیوال
    • گوجرانوالہ
    • گجرات
    • میانوالی
    • ننکانہ صاحب
    • وہاڑی
  • قلم اور کالم
    • کالم
    • اداریہ
    • مضامین
    • ایڈیٹر کی ڈاک
    • نوربصیرت
    • ادارتی مضامین
    • سرے راہے
  • پرنٹ ایڈیشن
    • آج کا اخبار
    • e - اخبار
  • Magazines
    • Sunday Magazine
    • Mahnama Phool
    • Nidai Millat
    • Family Magazine
  • News Paper & TV Channel
    • Waqt TV
    • The Nation
  • NAWAIWAQT GROUP
Nawaiwaqt
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
    • قومی
    • ملتان
    • بین الاقوامی
    • کاروبار
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • جرم و سزا
    • تفریح
    • لاہور
    • اسلام آباد
    • کراچی
  • متفرق شہر
    • آزادکشمیر
    • پشاور
    • حافظ آباد
    • سیالکوٹ
    • جھنگ
    • کوئٹہ
    • شیخوپورہ
    • سرگودھا
    • ساہیوال
    • گوجرانوالہ
    • گجرات
    • میانوالی
    • ننکانہ صاحب
    • وہاڑی
  • قلم اور کالم
    • کالم
    • اداریہ
    • مضامین
    • ایڈیٹر کی ڈاک
    • نوربصیرت
    • ادارتی مضامین
    • سرے راہے
  • پرنٹ ایڈیشن
    • آج کا اخبار
    • e - اخبار

تازہ ترین

  • وزیر اعظم شہباز شریف آج   ٹرن ارآؤنڈ پاکستان کانفرنس  میں خطاب کریں گے
  • وزیراعظم کا جدید جیل کمپلیکس اگلے سال تک مکمل کرنے کا حکم
  • وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ کورونا میں مبتلا ہوگئے
  • پاکستان اور فرانس کے درمیان 10.7 کروڑ ڈالر قرض ادائیگی مؤخر کرنے کا معاہدہ
  • بجلی کی فی یونٹ قیمت میں7 روپے سے زائد کاا ضافہ

نظر انداز کی جانے والی حقیقت

Jun 23, 2022 12:15 PM, June 23, 2022
  • نصرت جاوید
شیئر کریں:
Share
Tweet Google+ Whatsapp
نظر انداز کی جانے والی حقیقت

برملا

(نصرت جاوید)

پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں خلق خدا کی اکثریت سیاست دانوں کو خود غرض،نکما اور بدعنوان تصور کرتی ہے۔جمہوری ملکوں میں تاہم انہیں ”سزا“دینے کے لئے انتخاب کا انتظار کیا جاتا ہے۔امید باندھی جاتی ہے کہ یہ عمل ان کی جگہ بہتر لوگوں کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوگا۔ پاکستان جیسے ممالک جو طویل دہائیوں تک غیر ملکی سامراج کی غلامی میں رہے انتخابی عمل پر البتہ اعتبار نہیں کرتے۔صدیوں سے ہم ”ظالم مگر عادل“ سلطان کے خواہاں رہے ہیں۔یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اورنگزیب جیسے دین دار شہنشاہ کے ہوتے ہوئے بھی مغلیہ سلطنت اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائی تھی۔اس کے انتقال کے بعد ٹھوس اقتصادی اورسماجی وجوہات کے سبب خیبر سے ہزاروں میل دور بنگال اور دکن تک پھیلی سلطنت دلی کے کنٹرول سے باہر نکلنا شروع ہوگئی۔میسور،اودھ،بنگال اور حیدرآباد وغیرہ خودمختار صوبے داروں کے تسلط میں چلے گئے۔مرکز کمزور ہوا تو ملک بھر میں ابتری پھیل گئی۔ کامل انتشار کے اس ماحول کا برطانیہ نے فائد ہ اٹھایا اور غیر ملکی ہونے کے باوجود مستحکم حکومت اور امن وامان کو یقینی بنادیا۔

وزیراعظم کا جدید جیل کمپلیکس اگلے سال تک مکمل کرنے کا حکم

ریاست کو منظم اور مستحکم رکھنے کے نام پر برطانوی سامراج نے جو ادارے تشکیل دئیے تھے ان کی حیثیت ”دائمی“ تھی۔انگریزوں نے اسے ”آہنی ڈھانچے“کا نام دیا۔قیام پاکستان کے دوران جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے انہوں نے ان دائمی اداروں کے ڈھانچے کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ عام افراد ہی فسادات کی ہولناک زد میں رہے۔

انگریز کے بنائے ریاستی اداروں نے عوام کی فراست پر کبھی اعتماد نہیں کیا۔ ان کی دانست میں یہ جاہل اور اجڈ ”ہجوم“ ہی رہے جنہیں ریاست کو سخت گیر والد کی طرح گھوریاں ڈالتے ہوئے سیدھی راہ پر چلائے رکھنا ہے۔بھیڑوں کا ریوڑ جو چرواہا کے ڈنڈے کا محتاج ہوتا ہے۔ہمارے کسی سیاستدان نے ریوڑ اور چرواہا کے اس تعلق والے بندوبست کوتبدیل کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ عوام کو فقط یہ باور کروانا چاہا کہ افسر شاہی سے اٹھے ملک غلام محمد یا ایوب خان جیسے فوجی آمروں کے مقابلے میں وہ زیادہ بہتر ”چرواہا“ ہوسکتے ہیں۔ان کی ”دیدہ وری“ پر سرجھکائے اعتبار کیا جائے۔

وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ کورونا میں مبتلا ہوگئے

خود کو یک وتنہا ”دید ہ ور“ ثابت کرنے کی خواہش میں ہمارے سیاستدانوں نے اپنی جماعتیں منظم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے لئے نام نہاد ”الیکٹ ایبلز“ پر تکیہ کرتے رہے جو برطانوی دور ہی سے ”شرفا“ کہلاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے حضور کرسی پر بیٹھتے تھے۔”خان بہادر“ وغیرہ کے خطابات کی بدولت اترائے پھرتے تھے۔1947کے بعد ابھرے ”خان بہادر“ مگربہت ہی وکھری نوعیت کے حامل ہیں۔ڈیرے اور دھڑے کی بنیاد پر ”اپنے“ علاقوں میںپھنے خان بنے رہتے ہیں۔ قیام پاکستان سے چند ماہ بعد ہی وطن عزیز میں ان کی ”لوٹ مار“ کی داستانیں پھیلنا شروع ہوگئیں۔ہندو اور سکھوں کی چھوڑی جائیدادوں پر قبضے کی خواہش نے ”لوٹ مار“ کی ثقافت کو مزید پروان چڑھایا۔ ریاستی سرپرستی میں ”ککھ سے لکھ“ ہوئے افراد مگر جب اپنی ”اوقات“ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے تو بدعنوانی کے الزامات میں دھرلئے جاتے۔ ”کرپشن کی غضب کہانیوں“ کے شور نے ہمارے ہاں تقریباََ ہر دس برس بعد فوج کو بر اہ راست یا بواسطہ اقتدار پر کامل گرفت حاصل کرنے کا جواز فراہم کیا۔ ”کرپشن کی غضب کہانیاں“ مگر آج بھی ختم نہیں وہ پائی ہیں۔

پاکستان اور فرانس کے درمیان 10.7 کروڑ ڈالر قرض ادائیگی مؤخر کرنے کا معاہدہ

کرپشن کے مکمل خاتمے کے لئے جنرل مشرف نے اکتوبر 1999کے بعد ”احتساب بیورو“ نامی ادارہ بنایا تھا۔ اس ادارے کی جکڑ میں آئے کئی سیاستدان مگر قید میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز نظر آئے۔بدعنوان سیاستدانوں کی غیر ملکوں میں چھپائی دولت کا سراغ لگانے کے لئے جن غیر ملکی ماہرین کی ذہانت پر انحصار ہوا وہ بالآخر ہماری حکومت ہی سے بھاری بھر کم جرمانے وصول کرتے پائے گئے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ احتساب بیورو کی محدودات سے بخوبی آگاہ ہوجانے کے بعد 2008کے انتخابات کے بعد قائم ہوئی ”حقیقی جمہوریت“ کے دوران مذکورہ ادارے کے خاتمہ بالخیر کا اعلان ہوجانا چاہیے تھا۔ آئین کو ”اٹھارویں ترمیم“ کے ذریعے توانا تر“ بناتے ہوئے تاہم اس پہلو پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ہر سیاستدان کو جبلی طورپر ایسا ”سیاہ قانون“ ہمیشہ درکار ہوتا ہے جو اس کے مخالفین کو نکیل ڈال سکے۔ 2008کے بعد قائم ہوئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون)نے اگرچہ ”احتساب بیورو“ کو اس مقصد کے تحت شاذ ہی استعمال کیا۔

بجلی کی فی یونٹ قیمت میں7 روپے سے زائد کاا ضافہ

عمران خان صاحب مگر ”کرپشن کا مکمل خاتمہ“ والے اعلان کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے۔انہوں نے ”احتساب بیوروکو کھلاہاتھ فراہم کرنا یقینی بنایا۔شہزاد اکبر جیسے ”نورتن“ بھی اس کی معاونت کے لئے تعینات کئے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے کئی سرکرد ہ رہ نماﺅں نے طویل وقت نیب کی حراست میں گزارے۔ ان کی اکثریت بالآخر مگر اعلیٰ عدالتوں کے ہاتھوں ضمانت پر رہا ہوئی۔نیب کے ہاتھ آئے سیاستدانوں کو رہا کرتے ہوئے عزت مآب جج اکثر تحریری طورپر مذکورہ ادارے کو ”سیاسی انجینئرنگ“ کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے رہے۔ہمارے کئی جید کاروباری افراد عمران خان صاحب اور فوجی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں خبردار کرتے رہے کہ اگر نیب کی من مانیاں جاری رہیں تو ملک میں معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔

عراقی وزیراعظم کا سعودی عرب اور ایران کا دورہ، علاقائی استحکام پر تبادلہ خیال

ان کی فریاد نے بالآخر عمران حکومت کو مجبور کیا کہ و ہ نیب کو فرعونی اختیارات دینے والے قوانین میں تھوڑی نرمی لائے۔ جو ترامیم اس ضمن میں تجویز ہوئیں وہ سیاستدانوں کی اکثریت کو مطمئن نہیں کرپائیں۔ عمران خان صاحب مگر حقارت ورعونت سے اپنے مخالفین کو ”این آر او“دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ان کے ترجمان مصر رہے کہ ”کرپشن کا خاتمہ“ عمران خان صاحب کی مقبولیت کا کلیدی سبب ہے۔انہو ں نے ”چوروں اور لٹیروں“ کو معاف کردیا تو عوام کی نظر میں گرجائیں گے۔وہ اپنی ضدپر ڈٹے رہے تو ان کے مخالفین نے یکجاہوکر انہیں وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کردیا۔ ان کی جگہ جو حکومت آئی ہے اس نے اب نیب قونین میں جامع تبدیلیاں متعارف کروادی ہیں۔جو تبدیلیاں متعارف ہوئیں ان کی راہ روکنے کو تحریک انصاف کے 123اراکین قومی اسمبلی میں موجود ہی نہیں تھے۔وہ مذکورہ ایوان سے مستعفی ہوچکے ہیں۔سپیکر نے مگر ابھی تک انہیں نظر بظاہر قواعد کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے منظور نہیں کیا ہے۔

نیب قوانین میں تجویز کردہ ترامیم سینٹ میں پیش ہوئیں تو تحریک انصاف کے سینیٹروں نے بھرپور مزاحمت نہیں دکھائی۔انہیں اعتماد تھا کہ ان کے لگائے صدر عارف علوی ان کی منظوری نہیں دیں گے۔ نیب قوانین کا تبدیل شدہ مسودہ ایوان صدر گیا تو عارف علوی نے توقع کے عین مطابق اسے پارلیمان کو دوبارہ غور کرنے کے لئے واپس بھجوادیا۔صدر کے حکم کی تعمیل کے بجائے حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا اور مذکورہ ترامیم کو بآسانی منظورکروالیا۔

سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف اگر واقعتا نیب قوانین میں تبدیلیاں روکنے کی ٹھانے ہوئے تھی تو اس کے سینیٹروں نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیوں کیا۔اپنی موجودگی سے وہ اپنا کیس بھرپور انداز میں پیش کرسکتے تھے۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے تحریک انصاف کے نمائندوں کی غیر حاضری واضح عندیہ دے رہی تھی کہ و ہ بالآخر سپریم کورٹ ہی سے ”چور اور لٹیروں“ کو بخش دینے والے قانون کے خاتمے کی توقع باندھے ہوئے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کو ایک بار پھر ایک ایسے معاملے میں ملوث کیا جارہا ہے جس کا حل ڈھونڈنا بنیادی طورپر سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔اعلیٰ عدالت کو جب اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں حتمی فیصلہ سازی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے تو اس ادارے کا وقار اور ساکھ بھی خطرے میں پڑجاتے ہیں۔یہ عمل ملک کو استحکام بخشنے کے بجائے مزید خلفشار کی جانب دھکیل دیتا ہے۔اس حقیقت کو ہم مگر نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔

شیئر کریں:
Share
Tweet Google+ Whatsapp
نصرت جاوید

نصرت جاوید

نصرت جاوید

مشہور ٖخبریں
  • سپر ٹیکس کیخلاف واویلا اور مہناز دانیال کا کرب 

    Jun 27, 2022
  • ضروری ادویات کی کمیابی پر کس کی توجہ ہے

    Jun 28, 2022
  • صدر مملکت کی پاکستانی نوجوان احمد نواز کو آکسفورڈ یونین کا ...

    Jun 26, 2022 | 18:33
  •  وزیراعظم کو درپیش چینلجز  

    Jun 27, 2022
E-Paper Nawaiwaqt
اہم خبریں
  • وزیر اعظم شہباز شریف آج   ٹرن ارآؤنڈ پاکستان کانفرنس  میں ...

    Jun 28, 2022 | 10:15
  • وزیراعظم کا جدید جیل کمپلیکس اگلے سال تک مکمل کرنے کا حکم

    Jun 27, 2022 | 21:36
  • وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ کورونا میں مبتلا ہوگئے

    Jun 27, 2022 | 21:10
  • پاکستان اور فرانس کے درمیان 10.7 کروڑ ڈالر قرض ادائیگی مؤخر ...

    Jun 27, 2022 | 19:43
  • بجلی کی فی یونٹ قیمت میں7 روپے سے زائد کاا ضافہ

    Jun 27, 2022 | 19:33
  • کالم
  • اداریہ
  • سرے راہے
  • وعدے وفا کے ارادے دغا کے!!!!!!!!

    Jun 28, 2022
  •  اسلم بھوتانی ، خالد مگسی کا فنڈز نہ ملنے پر غصہ، ...

    Jun 28, 2022
  • بلند و بالاپہاڑوں کی ہیرو

    Jun 28, 2022
  • ضروری ادویات کی کمیابی پر کس کی توجہ ہے

    Jun 28, 2022
  •  پی ایس ایل سے کمانے والے اور متنازع کے پی ایل!!!!!!

    Jun 27, 2022
  • 1

    نیشنل ایکشن پلان: صوبوں میں روابط وقت کا اہم تقاضا

  • 2

    آرمی چیف کا دورۂ سعودی عرب اور  ان کیلئے مملکت کا اعلیٰ ترین اعزاز

  • 3

    سندھ بلدیاتی انتخابات میں  پیپلزپارٹی کی واضح برتری

  • 4

    معاشی استحکام کے لیے سارا بوجھ عوام پر مت ڈالیں

  • 5

    مقبوضہ کشمیر میں جی ٹونٹی  اجلاس بلانے کی بھارتی تجویز

  • 1

    منگل ،28 ذیقعد 1443ھ،28 جون 2022 ء

  • 2

    پیر ،27 ذیقعد 1443ھ،27 جون 2022 ء

  • 3

    اتوار ،26 ذیقعد 1443ھ،26 جون 2022 ء

  • ادارتی مضامین
  • مضامین
  • ایڈیٹر کی ڈاک
  • توشہ خانہ

    Jun 28, 2022
  • لاوا ابل رہا ہے

    Jun 28, 2022
  • احتساب کا خدا حافظ

    Jun 28, 2022
  • سری لنکا کی صورتحال پاکستان میں اضطراب کیوں؟

    Jun 28, 2022
  • اداروں کی تباہی ،ڈاکٹر محمود شوکت کا ذاتی تجربہ

    Jun 28, 2022
  • ’’ قرآن کریم کے اسپرانتو زبان میںمترجم کی ...

    Jun 28, 2022
  •    سپیکر قومی اسمبلی کا  منصب :  راجہ پرویز اشرف ...

    Jun 28, 2022
  • قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے

    Jun 28, 2022
  • سود؛ اللہ اور اسکے رسول ؐ سے جنگ …(2 ) 

    Jun 28, 2022
  •   22 کروڑ لوگ ٹیکس دیتے ہیں مگر؟

    Jun 28, 2022
  • 1

     غزل

  • 2

    ’’ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے''

  • 3

     لیگی دور  اور قومی ترقی و خو شحالی

  • 4

    تازہ بیانیہ

  • 5

    کلیاتِ امان

  • نور بصیرت
  • قائد اعظم نے فرمایا
  • فرمودہ اقبال
  • 1

    خادموں کا خیال رکھنے والے!

  • 2

    معاف کرنے کی عادت

  • 3

    عالمگیر پیغام (۳)

  • 1

    فرمان قائد

  • 2

    تعصب

  • 3

    فرمان قائد

  • 4

    ہندوستان میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک

  • 5

    کامیاب و کامران

  • 1

    فرمودہ اقبال

  • 2

    بالِ جبریل

  • 3

    فرمودہ اقبال

  • 4

    بالِ جبریل

  • 5

    بالِ جبریل

  • حالیہ تبصرے
  • زیادہ پڑھی گئی
  • نوائے وقت گروپ
  • رابطہ
  • اشتہارات
Powered By
Copyright © 2022 | Nawaiwaqt Group