آئین کا مقدمہ آئین کے بحران کی شکل میں
سعید آسی نے آئین کامقدمہ تو لکھ ڈالا لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی آنکھوں کے سامنے ایک نیا آئینی بحران بھوت بن کر نمودار ہوجاتا ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیںوہ خود اس آئینی بحران پر کیا سوچتے ہیں ۔
’’اس امر پر تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ملک کا نظام 1973ء کے آئین کے تحت چل رہا ہے، جو وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ہے اور آئین کی دفعہ 41 کے تحت صدر مملکت ریاست کے سربراہ اور وفاقی جمہوریہ کے اتحاد کی علامت ہیں جو کسی پارٹی کی نہیں بلکہ وفاق اور اس کی اکائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 48 کے تحت صدر مملکت نے وفاقی کابینہ یا وزیر اعظم کی ایڈوائس کے مطابق اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں، سوائے ان ذمہ داریوں کے جن کی انجام دہی کیلئے صدر مملکت کو آئین کی دفعہ 46,45 کے تحت صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔ اس حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں کہ وزیر اعظم، وفاقی کابینہ کے ارکان اور دوسرے متعلقہ مناصب پر فائز ہونے والی شخصیات پر کسی قانونی موشگافی کے تحت صدر کے کسی اعتراض یا ان سے حلف لینے سے انکار کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 101 کے تحت صدر اس امر کے پابند ہیں کہ وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے مطابق کسی بھی صوبے کے گورنر کا تقرر عمل میں لائیں گے، وہ ازخود کسی کے بطور گورنر تقرر کے مجاز نہیں اور آئین کی دفعہ 101 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت گورنر نے صدر کی خوشنودی حاصل ہونے تک اپنے منصب پر فائز رہنا ہے تو صدر کی یہ خوشنودی بھی وزیر اعظم کی ایڈوائس ہی کے تابع ہے کیونکہ گورنر کا تقرر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ہی عمل میں آتا ہے۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 105 کے تحت گورنر نے بھی وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر ہی جملہ فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں جبکہ آئین کی دفعہ 104 میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ گورنر کی عدم موجودگی میں صوبائی سپیکر قائم مقام گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے اور سپیکر کی عدم موجودگی میں صدر کسی بھی شخص کو قائم مقام گورنر تعینات کر سکیں گے۔ صدر نے جو ذمہ داریاں وزیر اعظم کی ایڈوائس پر سرانجام دینا ہوتی ہیں وہ بھی آئین میں طے شدہ ہیں اور صدر کو وزیر اعظم کی بھجوائی کسی ایڈوائس پر اعتراض ہو تو وہ نظرثانی کیلئے اسے واپس وزیر اعظم کو بھجوانے کے مجاز ہیں مگر صدر کو ایسا کوئی آئینی اختیار ہرگز حاصل نہیں کہ وہ وزیراعظم کی بھجوائی سمری پر ازخود نظرثانی یا اسے مسترد کریں۔ مقررہ میعاد کے بعد صدر کو وزیراعظم کی ایڈوائس ہر صورت قبول کرنا ہوتی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف آئینی تقاضوں کے مطابق قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد بدقسمتی سے وزیر اعظم سمیت پوری پی ٹی آئی حکومت نے آئین سے انحراف او ر سرکشی کا راستہ اختیار کر لیا جس کی صدر مملکت نے بھی پیروی کی حالانکہ اپنے منصب کی بنیاد پر صدر مملکت کسی پا رٹی کے نہیں بلکہ وفاق پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
افسوسناک صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ عدم اعتماد کی تحریک پر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے بھی اپنی لازمی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے اپنے آئینی اختیارات کے حوالے سے مختلف تاویلیں نکالنا شروع کر دیں جو آئین سے صریحاً انحراف کے مترادف تھا۔ ایسی ہی ایک تاویل کو بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کی رولنگ صادر کر دی اور ساتھ ہی اس تحریک کو پیش اور اس کی تائید کرنے والے تمام ارکان اسمبلی پر ملک سے غداری کا لیبل بھی لگا دیا جس کا چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور پھر عدالت عظمیٰ کے وسیع تر بینچ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیر آئینی اور اختیارات سے متجاوز قرار دے کر اسکی بنیاد پر اسمبلی توڑنے سے متعلق وزیر اعظم اور صدر مملکت کے اقدامات بھی کالعدم کر دئیے مگر پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ کے احکام کی بھی عدم تعمیل کا راستہ نکالنے کی کوشش کی گئی جس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد بالآخر پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد عمران خاں نے پبلک جلسوں میں نئی حکومت ہی نہیں، ریاستی آئینی اداروں پر بھی پھبتیاں کسنا شروع کر دیں، جبکہ صدر علوی اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے پی ٹی آئی کے ورکر بن کر اپنی آئینی ذمہ داریوں سے انکار اور تجاوز شروع کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف آئینی مناصب پر فائز ہونے والی شخصیات سے حلف لینے سے انکار کیا بلکہ پنجاب میں تو آئینی بحران پیدا کرنے کیلئے باقاعدہ دنگا فساد کا راستہ اختیار کیا گیا جس کیلئے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ پہلے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیلئے ووٹنگ کے پراسس میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی اور پھر وزیر اعلیٰ کے حلف کے معاملہ میں بھی روڑے اٹکانا شروع کر دئیے گئے۔ بالآخر لاہور ہائیکورٹ کے احکام کے تابع وزیر اعلیٰ کا حلف ممکن ہوا مگر صدر، گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے عدالتی احکام کی بھی عدم تعمیل کا راستہ اختیار کر لیا جو بادی النظر میں آئین و قانون سے سرکشی والا راستہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ صدر نے گورنر پنجاب کی برطرفی کیلئے وزیر اعظم کی ایڈوائس بھی درخوراعتنا ء نہ سمجھی جبکہ گورنر نے اپنے منصب کے ڈی نوٹیفائی ہونے سے متعلق وفاقی کابینہ کے فیصلہ کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں آئین سے انحراف کی یہ روش ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی اختیار کی جنہوں نے اپنی برطرفی سے متعلق پنجاب حکومت کے احکام کی تعمیل سے انکار کر دیا جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی نے آئین کی دفعہ 104 کے تقاضوں کے برعکس قائم مقام گورنر کا منصب سنبھالنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح پنجاب کو دانستہ طور پر آئینی بحران کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی آئی کی اس روش کا مقصد لازمی طور پر صوبے میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم نہ ہونے دینا ہے۔ چنانچہ آئین و قانون سے انحراف اور اداروں سے ٹکرائو کی اختیار کردہ اس پالیسی کو کسی صورت قابلِ ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ پالیسی جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک سے اتارنے کی کوششوں کے بھی مترادف ہے۔یہی آئین ِ پاکستان کا مقدمہ ہے کہ اسکی حفاظت کے ذمہ داروں کے ہاتھوں اسکی کیوں درگت بن رہی ہے اور اب اس وطنِ عزیز کو آئین و قانون کی عملداری کے راستے پر واپس لایا بھی جا سکے گا یا نہیں۔
اپنی نئی کتاب ’’آئین کا مقدمہ‘‘ میں، میں نے نوائے وقت میں جون 2021ء سے اب تک شائع ہونے والے اپنے کالموں کا حسب ِ حال انتخاب کرکے انہیں کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ یہی وہ عرصہ ہے جس کے دوران بالخصوص حکمران طبقے کی جانب سے آئین و قانون شکنی کی المناک تاریخ سیاہ ابواب کی صورت میں مرتب کی گئی ہے۔ آپ کو اس کتاب کی ترتیب و مواد میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو درگزر فرمائیے گا۔ آپ کے صائب مشوروں پر عمل بہرحال میری ذمہ داری ہے‘‘۔
کتاب کی اشاعت پر سعید آسی کو ڈھیروں مبارکبادیں او رعلامہ عبدالستار عاصم صاحب کا شکریہ کہ انہوںنے تاریخ کے ایک نازک موڑ پر قوم کا قرض چکا یا اور اپنا فرض نبھایا ہے ۔اس کتاب کے حصول کے لیے قلم فائونڈیشن سے فون نمبر 0300-0515101پر رابطہ کیا جا سکتاہے ۔