پاکستانی معیشت اور امریکی ڈالر

پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کے ساتھ ملک میں مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سمیت کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جو حکومت کو براہِ راست بیرونِ ممالک سے خریدنا پڑتی ہیں، لہٰذا ان کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے اور وہ بین الاقوامی منڈی میں طے ہونے والے نرخوں کے مطابق ہی فروخت ہوتی ہیں۔ ہاں، ایسا ہو جاتا ہے کہ حکومت کچھ اشیاء کی قیمتوں پر سبسڈی یا رعایت دے کر عوام کے لیے سہولت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اب اس رعایت میں بھی بتدریج کمی آتی جارہی ہے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا مطالبہ ہے کہ سبسڈی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات و شرائط اور حکومت کا انھیں تسلیم کرنا ایک طویل اور بحث طلب موضوع ہے جسے یہاں چھیڑنے سے آج کا موضوع پس منظر میں چلا جائے گا، لہٰذا اس بات کو یہیں چھوڑ کر ڈالر کی طرف واپس چلتے ہیں۔
اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ایک امریکی ڈالر کی قیمت پاکستان کے 211 روپے سے زائد ہے۔ اگست 2018ء میں جب موجودہ اسمبلیوں نے اپنی مدت کا آغاز کیا تب ڈالر کی قیمت 123 روپے کے لگ بھگ تھی۔ یوں ڈالر کی قدر میں گزشتہ تقریباً چار برس کے دوران کم و بیش 88 روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر، اگست 2018ء کی قیمت کے مطابق، تقریباً 72 فیصد کمی کا شکار ہوئی ہے۔ رواں برس 11 اپریل کو جب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 183 کے لگ بھگ تھی، یعنی تقریباً ڈھائی ماہ کے عرصے میں روپے کی قدر میں 28روپے سے زائد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ موجودہ صورتحال میں روپے کی قدر مستحکم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ امریکی ڈالر پاکستان روپے کے مقابلے میں مزید مہنگا ہوگا اور ڈالر کی قدر میں اضافے کے ساتھ مہنگائی بھی مزید بڑھے گی۔
اگست 1947 ء میں جب پاکستان وجود میں آیا اس وقت روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت 3 روپے 31 پیسے تھی۔ اس وقت بھارتی روپے کی قدر بھی اتنی ہی تھی۔ آج ایک امریکی ڈالر بھارت کے تقریباً 78 روپے کے برابر ہے۔ پچھلی پون صدی کے دوران پاکستانی اور بھارتی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں اتار چڑھاؤ کیسے کیسے آیا اس پر بہت سی رپورٹس ان دنوں اخبارات میں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر آتی رہی ہیں، لہٰذا یہاں ان اعداد و شمار کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈالر کی قدر کا تعین کرنے کے لیے بہت سے عناصر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ان میں سے کچھ تو حکومت کے اختیار میں ہوتے ہیں، سو ان پر قابو پا کر روپے کی قدر کو کسی حد تک مستحکم بنایا جاسکتا ہے لیکن کئی عناصر سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور منڈی کی قوتیں اور بین الاقوامی معاملات ان عناصر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
دسمبر 2011ء میں پاکستان کے سٹیٹ بینک اور چین کے مرکزی بینک نے ڈالر پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت دونوں ملکوں نے آپس میں طے کیا کہ آئندہ باہمی تجارت کے لیے ڈالر کے علاوہ چینی یوان کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ سکّوں کے تبادلے اس معاہدے (Currency Swap Agreement) پر 2013ء میں عمل شروع کیا گیا۔ اس معاہدے کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی تجارت اور سرمایہ کاری نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ دسمبر 2017 ء میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے چین کے پاکستان میں تعینات ہونے والے نئے سفیر یاؤ جنگ (Yao Jing) کے ساتھ سی پیک کے طویل مدتی منصوبے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ پاکستان چین کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے معاملے میں امریکی ڈالر کو چینی یوان تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تقریباً دو ہفتے کے بعد جنوری 2018ء میں سٹیٹ بینک نے دونوں ملکوں کے کاروباری اداروں کو یہ اجازت دیدی کہ وہ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے یوان کا انتخاب کرنے کے معاملے میں آزاد ہیں۔
پاکستان جیسے کسی ترقی پذیر ملک کی حکومت اپنے امریکی ڈالر پر انحصار کے لیے جتنی چاہے پالیسیاں بنا لے اور جیسے چاہے اقدامات کر لے کئی معاملات میں وہ بالکل بے بس ہوتی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا مغربی ممالک کے ساتھ مل کر ڈالر کو بطور ہتھیار بھی استعمال کرتا ہے (اس بات کو کسی اگلے مضمون میں موضوعِ بحث بنایا جائے گا کہ امریکا ڈالر کو ہتھیار کے طور پر کیسے استعمال کرتا ہے)۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو صرف ترقی پذیر ممالک ہی نہیںـ بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا کئی مواقع پر دنیا میں اپنا اثر و رسوخ ایسے طریقوں سے بھی استعمال کرتا ہے جن کے خلاف ردعمل کے آثار تو واضح دکھائی دیتے ہیں لیکن عالمی اور بین الاقوامی سطح پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں کسی مستحکم اور مضبوط کرنسی کی غیر موجودگی کی وجہ سے امریکا اور اس کے ڈالر کی بنیاد پر قائم کردہ عالمی نظامِ زر کو کوئی خطرہ نہیں۔