پاکستان مخالف سازشیں اور ہمارے تھنک ٹینکس

نوے کی دھائی میں بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوا تو انتخابی فہرستیں کونسلرز کے دفاتر میں پہنچ گئیں۔ میں نے وہاں سے انتخابی فہرست حاصل کی تاکہ اپنی فیملی کے ووٹوں کی تفصیلات لے سکوں کہ ہمارے ووٹ کس بوتھ پر ہیں۔ ووٹرز لسٹ دیکھتے ہوئے انکشاف ہوا کہ ہمارے گھر کے ایڈریس پر 23 جعلی ووٹ درج ہیں اور پھر ہمارے گھر کا کوئی اے اور بی پورشن بھی ہے جبکہ ان پورشنز میں مذکورہ 23 جعلی ووٹ کا اندراج بھی تھا حالانکہ ہمارے گھر کا کوئی اے یا بی پورشن ہی نہ تھا اور وہ گھر ایک ہی یونٹ تھا مجھے آج بھی یاد ہے کہ ووٹرز لسٹ میں ہمارے اس گھر کے جو فرضی پورشن ظاہر کئے گئے تھے ان میں کسی عبدالحمید بٹ اور اس کے خاندان کے 11 جعلی ووٹ درج تھے جبکہ پورشن اے میں 12 ووٹوں کا اندراج تھا اور وہ کوئی خواجہ فیملی تھی دوسری طرف حقیقت میں اس پورے گھر میں ہماری فیملی کے 8 ووٹ جو کہ حقیقی تھے رجسٹرڈ تھے یاد رہے کہ تب یہ قومی اسمبلی کا حلقہ 96 کہلاتا تھا اور موجودہ وزیراعظم پہلی مرتبہ اسی حلقے سے ممبر قومی اسمبلی کے لئے میدان میں اترے اور ممبر قومی اسمبلی بنے تھے تاہم میں جن انتخابات کا ذکر کر رہا ہوں وہ بلدیاتی انتخابات تھے۔ میں نے سخت اعتراض کیا اور درخواست دینا چاہی تو محلے کی بٹ برادری کے سرکردہ لوگ آ گئے کہ غلط اندراج ہو چکا ہے آئندہ درست کرا لیں گے۔ تب ہمارے اطراف میں دور دور تک نہ تو کوئی عبدالحمید بٹ صاحب رہتے تھے اور نہ ہی خواجہ یونس مگر ووٹ میرے گھر کے ایڈریس پر درج تھے جو کہ کاسٹ بھی ہوئے پھر جنرل الیکشن کے بعد ہم نے الیکشن کمشن کے لاہور میں واقع آفس تحریری درخواست دے کر وہ تمام جعلی ووٹ ختم کرائے۔
1988ء میں ذہین ترین افراد پر مشتمل چند اعلیٰ عہدے داروں نے جنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعد جب بے نظیر بھٹو کیلئے میدان صاف دیکھا تو نواز شریف کو انکے مقابل لانے کا فیصلہ کیا اور اسلامی جمہوری اتحاد کا پلیٹ فارم تیار کیا گیا جس کا مضبوط ترین نیٹ ورک یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر بنایا گیا اس وقت ان ’’اعلیٰ ترین ذہنوں‘‘ کے تصور میں بھی نہ ہو گا کہ یہ سارے کا سارا مضبوط فعال اور منظم نیٹ ورک ایک دن میاں نواز شریف کی گود میں آ گرے گا ویسے اس وقت غداری اور سکیورٹی رسک کے ’’عہدے‘‘ پر محترمہ بے نظیر بھٹو فائز تھیں اور نواز شریف کی حب الوطنی کے چرچے ہوا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف بھی چند سالوں بعد غدار اور سکیورٹی رسک قرار پا کر اسی لائن میں لگ گئے۔ لاہور میں خاص طور پر اور پنجاب بھر میں چند مخصوص حلقوں میں سالہا سال سے ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں جعلی ووٹ موجود ہیں اور ان جعلی ووٹ کی 90 فیصد تعداد طویل عرصہ تک اسمبلیوں میں رہنے والوں ہی کی ہے۔
کون نہیں جانتا جب میرے جیسا عام آدمی جان سکتا ہے کہ سلیم ماڈل سکول لوئر مال کی عقبی جانب کس پریس پر دن رات جعلی ووٹ چھپتے رہے۔ سول سیکرٹریٹ ٹرانسپورٹ پول کے ڈرائیور کیسے پرائیویٹ ٹرکوں میں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے سامنے واقع سرکاری سکول کے تہہ خانوں میں ان ووٹوں کی بوریاں بھرتے رہے اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ الیکشن گزرنے کے بعد بھی تقریباً دو سال تک بوریوں میں یہ جعلی ووٹ وہیں ڈمپ رہے۔ یہ کوئی پرانی نہیں بلکہ 2018ء کے الیکشن کی بات ہے جب پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت ختم اور پی ٹی آئی اقتدار میں آ چکی تھی مگر تونسہ کے بے چارے کو لاہور کے کاری گروں کی کہاں سمجھ آتی۔ دو سال بعد موقع ملا تو راتوں رات جعلی ووٹوں کی وہ تمام بوریاں غائب کر دی گئیں اور بزدار حکومت کو علم ہی نہ ہو سکا کہ انکی کم علمی اور کمزور گرفت نے کتنے بڑے ثبوت ضائع کر دیئے ہیں۔ موجودہ حکمران اتحاد نے اقتدار میں آتے ہی جو دو بڑی ترامیم کی ہیں ان میں سے ایک تو نیب رولز میں تبدیلی اور دوسری الیکشن ترامیم شامل ہیں۔ گو کہ صدر مملکت عارف علوی نے ان ترامیم پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے مگر 18 ویں ترمیم کے بعد اس انکار کی حیثیت محض ایک یاددہانی کے دوبارہ لکھے جانیوالے خط کی محتاج ہے اور بس پھر سب کچھ قانونی قرار دے دیا جائیگا حتیٰ کہ ساری کی ساری ترامیم منظور ہو جائیں گی۔ دنیا بھر میں وائٹ کالر کرائم ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور بہت سے ممالک میں یہ تقریباً ختم کر بھی دئیے گئے ہیں مگر پاکستان میں اسے ہر طرح سے تحفظ دیا جا رہا ہے۔ کیا ملک ہے کہ ایک طرف ہم ایف اے ٹی ایف سے نکل رہے ہیں اور دوسری طرف کرپشن کے مقدمات میں الجھے لوگ صاحب اقتدار ہیں۔ 18 ترمیم کا مسودہ بھی ایسے ہی منظور ہوا کہ اسکے بعد وفاق کو بہت کمزور کر دیا گیا ہے۔ ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کو علیحدہ کرنے پر 1950ء میں ہی کام شروع کردیا گیا تھا اور امریکی خفیہ اداروں کے علاوہ پالیسی سازوں نے ایک رپورٹ بنائی تھی کہ ون یونٹ کا نظام پاکستان میں لاگو کیا جائے کیونکہ دو اکائیوں کو علیحدہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک نے اس منصوبے پر 1951ء میں کام شروع کیا اور صرف پانچ سال بعد 1956ء میں ون یونٹ کا قانون آئیں کا حصہ بنا کر لاگو کر دیا گیا جو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش کی گھناؤنی سازش میں توڑ دیا گیا۔ 1956ء کے ون یونٹ قانون کے تحت مغربی پاکستان کے چاوں صوبے اور تمام ریاستیں ایک ہی یونٹ یعنی مغربی پاکستان قرار پائیں اور مشرقی پاکستان کے تمام علاقے دوسرا یونٹ قرار پائے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں تو قومی زبان اردو قرار دئیے جانے پر ہی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں حالانکہ دو زبانیں بھی قومی قرار پا سکتی تھیں۔ سوئٹزر لینڈ چھوٹا سا ملک ہے اور کہتے ہیں کہ وہاں ہزاروں زبانیں بولی اور تسلیم کی جاتی ہے اسکے علاوہ بھی کئی ممالک میں ایک سے زائد زبانوں کو قومی درجہ حاصل ہے۔ ون یونٹ سکیم کی "کامیابی" کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں 18 ویں ترمیم لاگو کر دی گئی جس میں صوبے بااختیار اور مرکز کمزور ہو گیا اب کوئی صوبہ کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ اکثریتی بنیاد پر کر ڈالے تو کیا وفاق ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا ہی دیکھتا رہے۔ پتہ نہیں ہمارے تھنک ٹینک کب عالمی سازشوں کو سمجھ سکیں گے۔ جب سمجھنا چاہیں گے تب ہی سدباب اور مقابلہ کا راستہ تلاش کریں گے۔ فی الحال تو اس دوڑ میں شامل ہیں کہ اپنی فیملی کو کون سے ملک میں سیٹ کرنا ہے۔