جمعرات ،23 ذیقعد 1443ھ،23جون 2022 ء

چولستان میں باران رحمت نے ٹوبے اور تالاب بھر دیئے
خدا خدا کرکے ملک میں ابر رحمت برسا تو کچھ اس طرح کہ واقعی جل تھل ایک ہو گیا۔ کئی روز سے ’’گھٹا ہے کہ برسنے کو بہانہ مانگے‘‘ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سہانا منظر آنکھوں کو بھا رہا ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی مست ہوائوں نے جون کو جنوری میں بدل دیا ہے۔ لگ رہا ہے موٹے کپڑے اور کمبل نکالنا پڑیں مگر یہ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات والی بات ہے۔ آگے مون سون جسے ساون بھادوں کہتے ہیں کا سیزن آنے والا ہے۔ جب ’’وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘ والی حالت الگ سے ہماری جان کھائے گی۔ وہ بعد کی بات ہے‘ اس وقت تو جو خوشگوار لمحات میسر ہیں‘ ان کا تو لطف اٹھائیں۔ چولستان کے باسیوں کو ہی دیکھ لیں جو خشک سالی کی وجہ سے گھر بار اور اپنا علاقہ چھوڑ کر ایسے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے جہاں چند گھونٹ پانی میسر ہو۔ ہزاروں جانور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ اب وہاں بھی جب آسمان سے موتی برسنے لگے تو زمین کے سینے پر ٹھنڈ پڑ گئی۔ دھول اڑتی زمین پر بنے تالاب اور ٹوبے بارش کے پانی سے بھر گئے تو وہاں زندگی پھر لوٹ آئی۔ سبزہ نمو پانے لگا تو وہاں سے روٹھ کر جانے والے باسی واپس آگئے۔ جانور ہوں یا انسان‘ سب کو اپنی جنم بھومی سے بہت پیار ہوتا ہے۔ اس وقت چولستان میں کیا انسان کیا‘حیوان سب خوشی سے نہال ہوکر رقصاں ہیں۔ خدا کرے یہ خوشی یونہی برقرار رہے اور خشکی سے ہماری جان چھوٹی رہے اور ہوا سے موتی یونہی برستے رہیں۔
٭٭……٭٭
پاکستان سے امن کے خواہاں‘کب کس سے بات کرنی ہے فیصلہ ہم کرینگے: اجیت دوول
بھارت کو پاکستان سے پرامن تعلقات اور باہمی امن کا مرض اس وقت لاحق ہوتا ہے جب خود بھارت کے اندر کا امن متاثر ہوتا ہے۔ وہاں بدامنی پھیلتی ہے۔ اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا جینا اجیرن کر دیا جاتا ہے۔ ہندو انتہا پسند مسجد‘ مندر‘گوردوارے توڑتے پھرتے گھروں دکانوں کو آگ لگاتے دنگا مچاتے ہیں۔ان حالات میں بھارت سرکار دنیا کی توجہ اپنے اندرونی حالات سے ہٹانے کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور امن کا ’’دھول بجانے لگتی ہے تاکہ دنیا کی توجہ اس طرف ہو جائے۔ یوں بھارت سرکار نہایت بے رحمی سے اپنے اندر اٹھنے والی بے چینی اور بدامنی کی لہر کو کچل دیتی ہے اور دنیا اس طرف سے غافل رہتی ہے۔ اس وقت بھارت میں ایک طرف مسلمان اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر سراپا احتجاج ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کی بکواس پر مشتعل ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں فوجی بھرتی کے نئے پروگرام ’’اگنی پتھ‘‘ کے خلاف ملک کی کئی ریاستوں میں آگ لگی ہوئی ہے بدترین پرتشدد ہنگامے ہو رہے ہیں۔ حکومت پریشان ہے کیا کرے۔ یہاں سامنے ہندو مظاہرین ہیں۔ پولیس اور فوج میں جرأت نہیں کہ ان پر گولی چلائے۔ ان سنگین حالات میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے پیٹ میں پاکستان سے امن کا جو مروڑ اٹھا ہے‘ اس سے پاکستان والے بخوبی واقف ہیں۔ اس لئے وہ ان کے اس بہکاوے میں نہیں آنے والے۔ بے شک امن ہماری بھی خواہش سے مگر امن کے نام پر ڈرامہ چلانے کی اجازت بھارت کو نہیں دی جا سکتی۔ ہماری نئی حکومت بھی اس بیان پر ریشہ خطی ہونے سے پرہیز کرے گی۔
٭٭……٭٭
عارف علوی پی ٹی آئی کی ٹوپی اتار کر صدر کی ٹوپی پہنیں: شاہد خاقان
سر صدر کا ہے تو مرضی ہے ان کی کہ وہ کون سی ٹوپی پہنیں اور کون سی نہیں۔ ہمارے صدر پڑھے لکھے انسان ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ صدر بننے والا اگر کوئی سیاسی کارکن ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی سیاسی شناخت ختم کرتا ہے۔ پارٹی سے مستعفی ہو جاتا ہے کیونکہ صدر پورے ملک کا آئینی سربراہ ہوتا ہے جسے ہم باپ کہتے ہیں۔ وہ کسی ایک جماعت کا ترجمان نہیں رہتا۔ اسے پورے ملک کے عوام کا سوچنا ہوتا ہے۔ سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے۔ گھر میں بچے چاہے کتنے ہی ضدی کیوں نہ ہوں‘ سب کا مزاج کتنا ہی جدا کیوں نہ ہو‘ ان سب کو ایک باپ ہی اپنے انداز میں ہینڈل کرتا ہے۔ اب اگر گھر کا سربراہ یعنی باپ ہی سر پھرا ہو جائے تو پھر کسی کی خیر نہیں ہوتی مگر اس کا انجام گھر میں فساد کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اب ہمارے صدر مملکت عارف علوی ابھی تک لگتا ہے خود کو صدر سے زیادہ تحریک انصاف کا کارکن سمجھتے ہیں۔ ان کی ہر ادا میں بنی گالہ کے اشاروں کی جھلک ملتی ہے۔ وہ ضدی بالک کی طرح یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری مرضی نہیں چلنی مگر اپنی بات منوانے کے نام پر حکومت کے ہر بل کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کی اسی ضد کی وجہ سے اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں صدر صاحب اب پی ٹی آئی کی ٹوپی اتار کر صدرمملکت کی ٹوپی پہنیں تاکہ ملک میں آئینی معاملات بہتر طورپر چل سکیں۔ دیکھتے ہیں ان کا مشورہ وہ سنتے ہیں یا نہیں۔
٭٭……٭٭
لاہور میں منشیات کے بڑھتے استعمال پر عظمیٰ بخاری کی اسمبلی میں تنقید
اس وقت منشیات استعمال کرنے والوں نے لاہور کے ہر چوک‘ پارک‘ میٹرو اور اورنج ٹرین کیلئے بنائے پلوں اور سڑکوں کے اردگرد گرین بیلٹس پر جس طرح قبضہ جمایا ہوا ہے وہ انتظامیہ کیلئے نہایت افسوس اور پولیس کیلئے شرم کا مقام ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری کا چونکہ آنا جانا پوش علاقے میںہوتا ہے‘ اس لئے انہیں کینال روڈ پر منشیات استعمال کرنے والوں کے جتھے دیکھ کر کوفت ہوتی ہے۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ ان کو ہٹا نہیں سکتی‘ منشیات کا استعمال یہاں رکوا نہیں سکتی تو انہیں اجازت دے‘ وہ خود جاکر کینال روڈ کو نشیئوں سے پاک کر دیں گی۔ اب یہ معمہ ہنوز حل طلب ہے کہ وہ یہ کام تن تنہا کس طرح کریں گی۔ اس کام کیلئے رستم جیسا بہادر چاہئے جو اب نہ پولیس میں میسر ہے نہ مقامی انتظامیہ میں۔ ہاں اگر عظمیٰ بخاری جھانسی کی رانی یا رضیہ سلطانہ کی مثال دہرانا چاہتی ہیںتو یہ ایک کام ہی انہیں تاریخ میں امر کر دے گا کہ انہوں نے لاہور شہر کو نہ سہی‘ کینال روڈ کو ہی نشئیوں سے پاک کرکے دکھا دیا۔ اگر وہ اس تجربے میں کامیاب رہتی ہیں تو پھر انہیں بھاٹی‘ لوہاری‘ آزادی چوک‘ داتا دربار‘ چوبرجی‘ دو موریہ پل‘ سٹیشن‘ دھرم پورہ‘ شالیمار‘ کریم پارک‘ بلال گنج‘ ناصر باغ‘ راوی پار شاہدرہ‘ بیگم کوٹ‘ قینچی امرسدھو اور شاہی محلے کو بھی ان نشیئوں سے پاک کرنے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے جو ایک بہت بڑا نیکی کا کام ہوگا۔