
پاکستان کے لوگوں نے طویل عرصہ بدامنی کے ایسے خوف میں گذارا ہے کہ جہاں ہر وقت گھر سے نکلتے ہوئے ایک خوف رہتا تھا باہر جا رہے ہیں واپس آئیں گے یا نہیں، بالکل ٹھیک جا رہے ہیں زخموں سے چور تو واپس نہیں آئیں گے، کہیں واپسی پر ہمیشہ کی معذوری تو نہیں ہو گی۔ اس خوف میں ایک نسل جوان ہوئی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان عالمی طاقتوں کا اتحادی رہا، عالمی طاقتیں اس جنگ سے تو نکل گئیں لیکن پاکستان اس جنگ میں ایسا الجھا رہا کہ دنیا کو محفوظ بناتے بناتے خود غیر محفوظ ہو گیا۔ ستم ظریفی ہے کہ اپنے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے پاکستان کو تن تنہا لڑنا پڑا۔ پاکستان کے نہتے، غیور اور بہادر لوگوں نے امن کی بحالی کے لیے برسوں خون دیا ہے۔ بہرحال ہماری فواج، حساس اداروں اور ریاست کے اداروں نے مشترکہ کاوشوں سے ملک کودہشت گردوں سے پاک کیا۔ جن ممالک کی پاکستان مدد کرتا رہا ان ملکوں نے ہمارا ساتھ دینے کے بجائے مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دیں، مختلف طریقوں سے پاکستان کو الجھایا گیا، پابندیاں لگاتے رہے۔ اس مشکل دور میں بھی پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہو رہی ہیں۔ اندرونی طور پر بھی آج ہر شہری خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اس بڑی کامیابی میں ہمارے فوجی جوانوں، رینجرز کے جوانوں، حساس اداروں اور پولیس کے جوانوں کا خون شامل ہے۔ اب امن کا یہ سفر اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کی طرف سفر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آج ہر طرف سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شور ہے یقیناً یہ بڑے مسائل ہیں اور ان کا حل ہونا ضروری ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ پائیدار امن ہے۔ معاشی استحکام معاشی سرگرمیوں کے بغیرنا ممکن ہے اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے پرامن ماحول سب سے اہم ہے۔ امن قائم رہتا ہے تو معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی، معیشت بہتر ہو گی تو سیاسی استحکام میں آسانی پیدا ہو گی۔ جہاں معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے وہیں پائیدار امن کے لیے بھی سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اسی سلسلے میں گذشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس میں طے پایا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ آئین کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے۔ شرکاء کو پاک افغان سرحد پر انتظامی امور اور ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے بارے میں بھی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، اجلاس کو اس تمام پس منظر سے باخبر کیا گیا جس میں بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہوا۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ افغان حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی سے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق پاکستانی قوم اور افواج کی قربانیوں سے ریاستی عمل داری اور امن کی بحالی ہوئی ہے۔ آج پاکستان کے کسی حصے میں بھی منظم دہشت گردی کا کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کی آخری لائن زیادہ حوصلہ افزا ہے۔ امن بحال کرنے کے لیے ہزاروں جانوں کی قربانی دی گئی ہے۔ امن قائم رکھنے کے لیے حکومت کو ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے بلکہ اب ہمیں سمارٹ سیکیورٹی کی طرف بڑھنا ہو گا۔ نگرانی کے لیے جدید نظام کے ساتھ آگے بڑھنا ضروری ہے۔ فورس کو نہایت عقلمندی کے ساتھ استعمال کرنا نہایت اہم ہے۔ امن سب کی ضرورت ہے اس معاملے میں کوئی حکومت کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو امن و امان قائم رکھنے کیلئے کردار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
یوٹیلیٹی سٹورز پر چنے کی دال کی قیمت ایک سو باسٹھ سے بڑھا کر ایک سو نوے روپے فی کلو کردی گئی ہے۔ یوں اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "دال جیڑی نبھے غریباں نال" یہ دال بھی غریبوں کی پہنچ سے نکلتی جا رہی ہے۔ اسی طرح سفید چنے کی قیمت دو سو پندرہ سے بڑھا کر تین سو روپے فی کلو ہو گئی ہے۔ دال مسور کی قیمت پندرہ روپے فی کلو اضافے کے بعد دو سو ستر روپے فی کلو ہو گئی ہے۔صابن کی قیمت میں 10 سے 30 روپے تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ واشنگ پاؤڈرکی قیمت دس روپے سے تیس روپے فی کلو تک بڑھا دی گئی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوتی تھی۔ پونے چار سال تک اس حوالے سے اتنی تنقید ہوئی لیکن حکومت ضروری اشیاء کی قیمتوں میں استحکام لانے میں ناکام رہی حکومت تبدیل ہونے کے بعد ڈالر کے ساتھ ساتھ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو بھی پر لگ چکے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد مہنگائی کی ایک نئی لہر آئی ہے ۔ عوام ایسی لہروں کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ اس مہنگائی میں بھی ایک خوشی کی خبر ہے اور وہ خبر یہ ہے کہ ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یوں ہم اکیلے نہیں بلکہ انگلینڈ بھی ہمسفر ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باعث برطانیہ میں مہنگائی کی شرح چالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ برطانیہ میں مئی کے دوران مہنگائی کی شرح نو اعشاریہ ایک فیصد ریکارڈ ہوئی جو مارچ 1982 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔برطانیہ میں مہنگائی کی شرح اس وقت جی سیون ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ شہباز شریف کی طرح امریکی صدر جو بائیڈن بھی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ جو بائیڈن نے ملک میں مہنگائی کم کر نے کے لیے چینی مصنوعات پر عائد ٹیرف ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جلد چین کے صدر سے بات کریں گے۔ امریکہ کو چالیس سال کی تاریخی مہنگائی کا سامنا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ، انگلینڈ اور پاکستان کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ امریکہ کا چین بارے بدلتا رویہ بتاتا ہے کہ ضرورت کے وقت سب سے پہلا کام مسئلہ حل کرنا اور اپنے لوگوں کو فوری طور پر سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی رہائش گاہوں پر اینٹی کرپشن ٹیم کے چھاپے جاری ہیں۔ عثمان بزدار اسے پنجاب حکومت انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں لیکن بہت سے باخبر دوست بتاتے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف مقدمات جائز ہیں۔ کیس چلتا ہے وہ گناہگار ثابت ہوتے ہیں یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ عثمان بزدار کے حوالے سے بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ کو اپنا موقف ضرور دینا چاہیے کیونکہ وہ پورا وقت ان کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ انہیں پسماندہ ثابت کرنے کی پوری کوشش ہوتی رہی لیکن کیا پسماندہ علاقے سے تعلق وزارتِ اعلیٰ کی بنیادی شرط ہے۔