وزیر خزانہ جناب مفتاح اسماعیل نے اطلاع دی ہے کہ تیل مہنگا آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی منڈی میں اس کے دام بڑھنے کی وجہ سے ہوا ۔ ایک خبر ہے کہ وزیر اعظم صاحب بھی جلد قوم کو اعتماد میں لیں گے (یعنی قوم سے خطاب کریں گے) کہ تیل کے نرخوں میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں بلکہ عالمی منڈی کی گرانی ہے۔
یعنی یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ پتّے ہرے نہیں سبز ہوتے ہیں، پھول سرخ نہیں، لال ہوتے ہیں اور کوّا کالا نہیں بلکہ سیاہ ہوتا ہے۔ جو اطلاع دی جا رہی ہے یا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی غیر ضروری صفائی دینے کے پیچھے کیا راز ہے، دانایانِ راز ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یہ گویا کان کو ہاتھ پیچھے سے لے جا کر پکڑنے کی کوشش ہے حالانکہ بات تو ایک ہی ہے۔ آئی ایم ایف نے کبھی کسی ملک سے یہ نہیں کہا کہ فلاں چیز مہنگی کر دو۔ وہ سب سڈی ختم کرنے کی ہدایت دیتا ہے اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جو نکل رہا ہے۔ سب سڈی دینے کا مطلب ہے مہنگی چیز خرید کر عوام کو کم قیمت پر بیچو اور سب سڈی ختم کرنے کا مطلب ہے جو شے جس بھائو خریدتے ہو، اسی بھائو بیچو چنانچہ عالمی منڈی سے تیل مہنگا ملے گا تو مہنگا بکے گا۔
بات ایک ہی ہے یا کہ نہیں۔ پھر یہ کھکھِڑ کیوں کھکھِڑ جا رہا ہے؟ شاید آئی ایم ایف کی کوئی نئی شرط آ گئی ہے کہ جس میں بدنامی سے بچائو؟ یا پھر یہ کچھ ’سابقون‘‘ کو این آر او دینے کی سعی نامشکور ہے۔
……………
ڈالر 210 کا سنگ میل عبور کر چکا، اب 220 کا سنگ میل نشان منزل ہے۔ اللہ اکبر۔ چار سال پہلے شروع ہونے والا سونامی ختم کیا لیکن اس کا ’’ڈومینو افیکٹ‘‘ نہ جانے کہاں جا کے رکے گا، کیسے رکے گا اور کون روکے گا۔
ایسے بھی ایک پیش گوئی یاد آ گئی جو غلط نکلی۔ جب رضا باقر کو سٹیٹ بنک کا گورنر بنایا گیا تب یہ پیش گوئی بہت سے تبصرہ نگاروں نے کی تھی کہ موصوف پاکستان کا حال مصر والا کر کے چھوڑیں گے۔
پیش گوئی یوں غلط ثابت ہوئی کہ مصر تو بہت پیچھے ر ہ گیا ، پاکستان کتنی ہی آگے کی منزلیں ٹاپ گیا اور اب بحر ظلمات میں غوطے کھارہا ہے۔سہرا رضا باقر کے سربندھتا ہے یا ان کے لانے والوں پر!۔ کیا بے کار سوال ہے۔ حدیث لیلیٰ، فریب محمل، سراب ناقہ، کیا کہئے۔
……………
الیکشن کمشن نے محض آٹھ سال کی قلیل مدّت میں ایک بڑا معرکہ سر کر لیا۔ پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کی نہ صرف سماعت مکمل کر لی بلکہ اس کا فیصلہ بھی لکھ ڈالا۔ یعنی کمال در کمال کر دیا۔ اس دوران پی ٹی آئی نے التوا کی درجنوں اپیلیں کیں لیکن جلد سماعت کے لیے الیکشن کمشن نے کبھی بھی اپیل پر چند مہینے سے زیادہ کا التوا نہیں دیا حالانکہ انصاف کا مطلب تحریک انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ کم از کم سو پچاس برس کا التوا تو دیا جاتا۔
بہرحال، اب یہ فیصلہ تحریر کر کے محفوظ بنا دیا گیا ہے تو بعض احباب کوجلدی پڑ گئی ہے کہ فیصلہ سنایا کب جاتا ہے۔ ارے بھائی اتنی جلدی کیوں ہے۔ فیصلہ لکھنے میں آٹھ سال لگے، سنا نے میں بھی ڈیڑھ دو سال لگ جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بعض سیانوں کا کہنا ہے کہ فیصلہ سنانے میں اتنا فائدہ نہیں جتنا اسے لٹکانے میں ہے واللہ اعلم۔
……………
رحیم یار خاں کی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ کوٹ سمابہ کے ایک شخص منیر نے اپنی رشتہ دار کی 8 سالہ بچی کو سیر کرانے کے بہانے ساتھ لیا۔ نہر پر لے جا کر اس کے کانوں سے آدھ تولے کی بالیاں اتاریں اور پھر اسے نہر میں پھینک دیا کہ ڈوب کر مر جائے۔ بچی نہر میں غوطے لگانے لگی تو پٹڑی پر کھڑا کتا نہر میں کود گیا اور بچی کو کھینچتا ہوا دوسرے کنارے پر لے گیا۔ بچی صحیح سلامت باہر نکل آئی۔ یہ منظر دیکھنے والے راہگیروں نے منیر سے پوچھا کہ تم نے اسے نہر میں کیوں پھینکا جس پر وہ اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا اور اوپر سے گھوم کر دوسرے کنارے پہنچا۔ وہاں اس نے بچی کو پھر پکڑ لیا اور گلا دبا کر مار ڈالا۔ پولیس نے بعدازاں ملزم کو گرفتار کر لیا۔
ہمارے ہاں کسی کو بہت بری گالی دینا ہو تو اسے ’’کتّا‘‘ کہا جاتا ہے اور بہت ہی بری گالی دینا ہو تو کتے کا بچہ کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں تو اس کے برعکس کہا جانا چاہیے۔ بہت بری گالی دینا ہو تو انسان، اور بہت ہی بری گالی دینا ہو تو انسان کا بچہ کہنا چاہیے۔
……………
محض آدھے تولے سونے کی خاطر ایک معصوم بچی کا قتل۔ ’’انسانیت‘‘ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں، بالخصوص پختونخواہ اور پنجاب میں گزشتہ کچھ برسوں سے معصوم بچوں کے قتل کے واقعات ڈرا دینے کی حد تک بڑھ گئے ہیں اور معاشرے کے کسی بھی طبقے، دانشوروں، علماء قانون والوں، ماہرین اخلاقیات، سول سوسائٹی سمیت کسی نے بھی اس پر کوئی اونچی آواز نہیں نکالی ہے، اونچی آواز کیا معنے، سرگوشی تک سنائی نہیں دی۔ ایسے معاشروں کو سماجیات کے علم میں ’’قبرستان‘‘ کہا جاتا ہے۔
دو تین روز پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ان واقعات کے تدارک کیلئے کوئی سیل بنانے کا حکم دیا ہے۔ دیکھئے، یہ سیل کتنے برس میں اپنی سفارشات طے کرتا ہے۔
……………
جے یو پی کے رہنما مولانا ابوالخیر نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے ایک بیان پر احتجاج کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مذکورہ بیان سے یہ مطلب اخذ ہوتا ہے کہ موصوف اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامی ہیں لیکن سلیم مانڈوی والا نے اس بیان کی واضح تردید کر دی ہے۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی اسرائیل کی سخت گیر مخالف جماعت رہی ہے اور ایسی کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنا موقف بدل ڈالے۔
مولانا ابوالخیر بے فکر رہیں۔ جن لوگوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور جن کی حکومت آتے ہی اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آنے کی خبر چلی تھی اور جن کے وزیر اعظم کے مشیر نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور جن کی خاتون رکن اسمبلی نے پارلیمنٹ میں اسرائیل کے فضائل کے باب میں پورا خطبہ دیا تھا، وہ چلے گئے اور اب ان کے واپس آنے کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔ انہیں چاہیے کہ سلیم مانڈوی والا کی تردید قبول کر لیں۔
……………
شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے کہ /17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔
الیکشن میں ابھی 25 دن باقی ہیں۔ 25 دن پہلے ہی نتائج بھی شاہ صاحب نے دیکھ لئے اور ان میں ردّوبدل کا ملاحظہ بھی کر لیا۔ لگتا ہے شاہ صاحب نے ٹائم مشین بنا لی ہے اور پھر کشف سے معلوم کر لیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38