پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بیواؤں کا بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد بیوہ خواتین کو درپیش غربت‘ صحت اور انصاف سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
جیون ساتھی کھو دینا بہت بڑا دکھ ہے، یہ ایک عذاب ہے، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں، جہاں ان کا یہ نقصان بنیادی ضرورتوں کی فراہمی، انسانی حقوق اور وقار برقرار رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد کے باعث کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
خاص کر وبا کے ان دنوں میں جب ہر طرف بیماری اور خوف کا راج ہے، بیواؤں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، اور دوسری طرف معاشرے میں کچھ ایسے ظالمانہ رویے بھی موجود ہیں جن سے بیوائیں بھی محفوظ نہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بیواؤں کی جائیدادیں چھین لی جاتی ہیں، انھیں معاشرے میں تنہائی اور بے بسی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، گزشتہ وباؤں میں بھی یہی المیہ دیکھا گیا۔
دنیا بھر میں بیوہ خواتین کی تعداد کم و بیش 25 کروڑ ہے، اقوام متحدہ نے سال 2015 سے اس دن کو منانے کا اعلان کرتے ہوئے رکن ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ بیواؤں اور ان کے بچوں کو درپیش مسائل کا حل نکالیں اور انھیں معاشرے میں با عزت شہریوں کے حقوق فراہم کریں۔
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باعث مقبوضہ کشمیر کے تقریباً ہر گھر میں اپنے شوہر کو کھو دینے والی خواتین موجود ہیں اور مقبوضہ وادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 22 ہزار سے زائد خواتین بیوگی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔
لاکھوں کشمیری خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر کئی برس سے لاپتا ہیں اور تاریخ میں پہلی بار کشمیری خواتین کے لیے آدھی بیوہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، یعنی ان کے شوہر ہیں بھی اور نہیں بھی۔